عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/نیشنل کانفرنس کے سری نگر سے رکنِ پارلیمان آغا روح اللہ مہدی نے کہا ہے کہ پارٹی نے ان سے ’’’عملاً تمام رابطے ختم‘‘ کر دئیے ہیں، خاص طور پر اُس وقت سے جب انہوں نے گزشتہ سال متنازعہ ریزرویشن پالیسی کے خلاف وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر طلبہ کے احتجاج میں شرکت کی تھی۔
آغا روح اللہ نے ایکس اسپیس سیشن کے دوران بات کرتے ہوئے کہا:اسمبلی انتخابات تک میری رائے کی اہمیت تھی۔ اگرچہ پارٹی میرے طریقوں سے متفق نہ بھی ہوتی، تب بھی میرے خیالات کی حمایت کرتی تھی۔ لیکن ریزرویشن احتجاج کے بعد پارٹی نے مجھ سے بات چیت بند کر دی۔
انہوں نے کہا کہ یہ دوری انتخابات ختم ہونے کے فوراً بعد شروع ہوئی۔ جب تک مجھے لوک سبھا انتخابات لڑنے کے لیے منایا گیا اور اسمبلی انتخابات سے قبل کے عرصے تک مجھے مشورے میں شامل کیا جاتا تھا، لیکن بعد میں میری باتوں کو سنا ہی نہیں گیا۔
آغا روح اللہ نے کہا کہ حالیہ عرصے میں پارٹی قیادت نے ان سے کسی بھی سیاسی مشورے کی طلب نہیں کی، حالانکہ وہ اب بھی پارلیمنٹ میں پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیااب میری سیاسی سوچ کے لیے کوئی خریدار نہیں رہا۔
تاہم، مہدی نے واضح کیا کہ وہ پارٹی سے براہ راست ٹکراؤ سے اس لیے گریز کرتے رہے کیونکہ وہ پارٹی کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہامجھے معلوم ہے کہ انہیں مرکز کے ساتھ معاملات چلانے ہوتے ہیں، اسی لیے میں نے اپنا موقف ان پر مسلط نہیں کیا۔ کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ریاستی درجہ بحال نہ ہونے کا ذمہ دار میں ہوں۔
روح اللہ نے کہاکہ دسمبر 23 کے احتجاج میں شرکت ہی تعلقات میں خرابی کی بنیادی وجہ بنی۔ میں نے کوئی احتجاج منظم نہیں کیا تھا۔ یہ طلبہ کا خودجوش اجتماع تھا، جو خود کو دھوکہ خوردہ محسوس کر رہے تھے۔ میں بس ان کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اگر میری موجودگی نے ان کی آواز بلند کرنے میں مدد کی تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض پورا ہوا۔
چاہے اسے احتجاج کہیں یا کچھ اور، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر طلبہ کے ساتھ کھڑے ہونے سے میں پارٹی میں دشمن بن گیا تو مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں۔انہوں نے مزید کہامیرا ایک اخلاقی فریضہ ہے کہ میں اپنے لوگوں کے لیے بولوں، چاہے وہ پارٹی کے اندر ہو یا باہر۔ لیکن یہ لا تعلقی اندر سے مجھے کھا رہی ہے۔
آغا روح اللہ نے زور دے کر کہا کہ ان کی سیاست کسی ذاتی مفاد یا خواہش پر مبنی نہیں ہے۔ جو کچھ میں کہتا ہوں وہ میرے ضمیر سے نکلتا ہے، نہ کہ کسی سیاسی مقصد سے۔ مجھے کسی کو کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا منصف میرا خدا ہے۔
جس احتجاج کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ نئی ریزرویشن پالیسی کے خلاف تھا، جس میں طلبہ کا کہنا ہے کہ اوپن میرٹ کوٹے کو تقریباً 30 فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ باقی نشستیں مخصوص زمروں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ اس فیصلے نے عام زمرے کے امیدواروں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے۔
اس احتجاج کے جواب میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ ایک کابینہ ذیلی کمیٹی اس پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے گی اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کیے جا رہے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہفتہ کے روز اینٹی کرپشن بیورو نے آغا روح اللہ اور ان کے چھ رشتہ داروں سمیت 22 افراد کے خلاف فردِ جرم داخل کی ہے، جس میں زمین کے ریکارڈ میں مبینہ رد و بدل کا الزام ہے۔
فردِ جرم پر ردعمل دیتے ہوئے آغا روح اللہ نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پارٹی کی جانب سے اس معاملے کے بعد کوئی رابطہ کیا گیا، تو انہوں نے کہا، نیشنل کانفرنس کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ اگر وہ رابطہ کرتے، تو انہیں کیس کی حقیقت معلوم ہو جاتی ، انھوں نے اس طرح پارٹی کے اندرونی رابطے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔