عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/پہلگام حملے کے دوران ’’اللہ اکبر‘‘کہنے والے زپ لائن آپریٹر سے تفتیش کی جا رہی ہے، تاہم اُس کے والد کا کہنا ہے کہ اُن کے بیٹے کے اس جملے کو غیر ضروری طور پر غلط رنگ دیا جا رہا ہے، کیونکہ مسلمان اکثر مواقع پر یہ کلمہ ادا کرتے ہیں۔
22 اپریل کو پیش آئے ملی ٹینٹ حملے میں 26 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس واقعے کی ویڈیو ایک سیاح رشی بھٹ نے بنائی، جو احمد آباد سے آئے تھے اور زپ لائن پر سوار تھے۔ 53 سیکنڈ کی اس ویڈیو میں مزمل نامی زپ لائن آپریٹر کو پہلی گولی چلنے کے بعد تین بار ’’اللہ اکبر‘‘کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو چکی ہے۔
مزمل کے والد نے پی ٹی آئی کو بتایا،میں نے ویڈیو نہیں دیکھی… وہ کل گھر آیا تھا، لیکن پھر پولیس اُسے گاڑی میں لے گئی۔ ہم مسلمان ہیں، طوفان آئے یا کوئی کام شروع کریں، ہم’’اللہ اکبر‘‘کہتے ہیں۔ اس میں کیا غلط ہے؟
سیاح رشی بھٹ کا دعویٰ ہے کہ مزمل کے ’’اللہ اکبر‘‘کہنے کے فوراً بعد فائرنگ شروع ہوئی، لیکن ویڈیو میں واضح ہے کہ مزمل نے یہ الفاظ گولی چلنے کے بعد ادا کیے۔تحقیقات کے سلسلے میں کشمیر بھر سے سینکڑوں افراد، جن میں پہلگام کے گھوڑے والے اور دیگر مقامی خدمات فراہم کرنے والے شامل ہیں، کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جا رہی ہے تاکہ حملہ آوروں کا پتہ لگایا جا سکے۔دوسری جانب مزمل کی حراست پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ مسلمان مشکلات کے وقت ’’اللہ اکبر‘‘کہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، جیسے کچھ ہندو’جئے شری رام‘کہتے ہیں، ویسے ہی مسلمان’اللہ اکبر‘کہتے ہیں۔ ہم ’اللہ اکبر‘اُس وقت بھی کہتے ہیں جب کچھ بھاری اٹھانا ہو… کچھ عناصر معاشرے میں فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے ہیں، جو ملی ٹینٹوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے جیسا ہے۔کئی مذہبی رہنماؤں نے بھی مزمل کے الفاظ کو حملے سے جوڑنے کو غلط قرار دیا ہے۔
پہلگام زپ لائن ورکر کے والد کا بیان:مسلمان ہر موقع پر ’اللہ اکبر‘کہتے ہیں
