عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی یورپ، وسطی اور مشرقی ایشیا کے منجمد خطوں سے ہزاروں مہاجر پرندوں نے وادی کا رخ کیا ہے، جس سے ہوکرسر، ولراور شالہ بوگ جیسے آبی ذخائر زندگی سے بھر گئے ہیں۔ہر سال نومبر سے مارچ تک، جیسے جیسے شمالی خطوں میں درجہ حرارت گرتا ہے، پرندوں کے یہ جھنڈ طویل اور صبر آزما پرواز طے کرتے ہوئے کشمیر پہنچتے ہیں۔ یہاں کی جھیلیں نہ صرف ان کے آرام کی جگہ بنتی ہیں بلکہ ان کے لیے خوراک اور قدرتی تحفظ کا مرکز بھی فراہم کرتی ہیں۔جنگلی حیات کے محکمہ کے اہلکاروں کے مطابق اس برس کا مہاجرتی سلسلہ اکتوبر کے اواخر سے شروع ہوا ہے اور مارچ تک جاری رہے گا۔ حالیہ بارشوں کے بعد وادی کے اکثر آبی ذخائر میں پانی کی سطح بہتر رہی ہے، جو ان پرندوں کے لیے موزوں مسکن فراہم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس برس پانی کی سطح اطمینان بخش ہے، جس سے توقع ہے کہ گزشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی ایک ملین (دس لاکھ سے زائد) مہاجر پرندے وادی کا رخ کریں گے۔ ابتدائی مشاہدات میں پرندوں کی آمد کے رجحان میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی۔بلیک ہیڈڈ گل، ٹفٹڈ ڈک، برہمنی ڈک، نادرن پن ٹیل، ریڈی شیلو اور گری بگ گوس جیسے معروف پرندے شامل ہیں، جو سائبریا، فلپائن، جاپان اور قزاقستان جیسے خطوں سے ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے یہاں پہنچے ہیں۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق ان پرندوں کی آمد محض ایک خوبصورت منظر نہیں بلکہ ماحولیاتی توازن کی بحالی کا ایک اہم حصہ ہے۔محکمہ کے ایک اہلکار نے کہا،’یہ پرندے نہ صرف خوراکی زنجیر کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ آبی ذخائر کی قدرتی تخلیقِ نو میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ان کی موجودگی ماحولیاتی نظام کے صحت مند ہونے کی علامت ہے۔‘تاہم، پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی چیلنجز بھی پیدا ہوتے ہیں — غیر قانونی شکار، دلدلی علاقوں کی تباہی، اور آلودگی جیسے مسائل ان کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ان خطرات کے پیش نظر، وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے اس سال نائٹ پیٹرولنگ، پولیس کے ساتھ مشترکہ نگرانی، اور دیہی آبادی میں بیداری مہمات کا آغاز کیا ہے۔محکمہ کے ایک افسر نے بتایا،’ہم نے ہوکرسر اور شالہ بوگ جیسے حساس مقامات پر مستقل گشتی ٹیمیں تعینات کی ہیں۔ مقامی نوجوانوں کو بھی اس مشن میں شامل کیا گیا ہے تاکہ غیر قانونی شکار یا جال بچھانے کے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے دیہات میں آگاہی پروگرام چلائے جا رہے ہیں، تاکہ لوگ ان پرندوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے ان کے تحفظ میں کردار ادا کریں۔مہاجر پرندوں کی آمد نے نہ صرف ماہرین ماحولیات بلکہ فوٹوگرافروں، قدرتی مناظر کے شوقین سیاحوں، اور طلبہ کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ہوکرسر میں فوٹوگرافی کے شوقین ریاض احمد نے بتایا،’سورج طلوع ہوتے ہی جب جھیل پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے گونجتی ہے تو وہ منظر ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔ ہر سال میں یہاں نئے رنگ، نئی پرجاتیاں اور قدرت کے نئے جلوے دیکھتا ہوں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ ولر جھیل، جو جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل مانی جاتی ہے، ان پرندوں کے لیے ایک قدرتی میزبان ہے۔ یہاں کے دلدلی کنارے اور آبی پودے ان کے لیے مثالی خوراک فراہم کرتے ہیں۔اسی طرح ہائی گام اور شالہ بوگ کی جھیلیں شمالی کشمیر میں پرندوں کے لیے بہترین آرام گاہیں ہیں، جہاں ہر صبح اور شام ان کے جھنڈ فضا میں اڑان بھرتے نظر آتے ہیں۔وائلڈ لائف محکمے نے حالیہ برسوں میں متعدد اقدامات کیے ہیں تاکہ ان آبی ذخائر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ان اقدامات میں پانی کے بہاؤ کی بحالی، گندے نالوں کا رخ موڑنا، اور مقامی آبادی کے لیے متبادل روزگار کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے تاکہ غیر قانونی شکار پر قابو پایا جا سکے۔
ایک اہلکار نے کہا،’اگر عوام اور حکومت دونوں اس ماحولیاتی ورثے کی حفاظت کے لیے مل کر کام کریں، تو کشمیر کے یہ آبی ذخائر نہ صرف وادی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے فخر کا باعث بن سکتے ہیں۔‘محکمہ نے بتایا کہ حتمی پرندہ مردم شماری اگلے ہفتے تک مکمل کی جائے گی جس سے اس سال آنے والے پرندوں کی درست تعداد کا اندازہ ہوگا۔ گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی دس لاکھ سے زائد پرندوں کی آمد متوقع ہے۔کشمیر کی یہ جھیلیں سردیوں میں جب برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں، تو ان کے اوپر اڑتے ان ہزاروں پرندوں کی موجودگی نہ صرف زندگی کی علامت ہے بلکہ قدرت اور انسان کے باہمی رشتے کی ایک حسین یاد دہانی بھی ہے۔یہ پرندے، جو ہزاروں میل دور اپنے گھونسلوں سے نکل کر یہاں آتے ہیں، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زمین کی خوبصورتی صرف انسان کی نہیں، بلکہ ہر جاندار کی میراث ہے۔
لاکھوں مہاجر پرندوں کی کشمیر آمد، حسین مناظر نے وادی کا رنگ بدل ڈالا