یو این آئی
جموں// جموں وکشمیر کے کٹھوعہ ضلع کے گھنے جنگلات میں جمعرات کو چوتھے روز بھی تلاشی آپریشن جاری رہا۔ معلوم ہوا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے چھاپہ ماری کے دوران زائد از 50افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کٹھوعہ میں فوجی کانوائی پر حملے کے بعد گھنے جنگلات میں جمعرات کو چوتھے روز بھی ملی ٹینٹ مخالف آپریشن جاری رہا۔
ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو سیکورٹی فورسز نے مزید کئی علاقوں کو محاصرے میں لے کر تلاشی آپریشن کا دائرہ وسیع تر کیا ۔
ان کے مطابق فوج ، پولیس ، سی آرپی ایف اور خصوصی کمانڈوز جنگلی علاقے کی تلاشی لے رہے ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں اور ڈرون کیمروں کے ذریعے علاقے کی نگرانی کا عمل تیز کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں صوبے کے دس اضلاع میں امکانی حملوں کو ٹالنے کی خاطر فوج نے 40’کویک رسپانس‘ ٹیموں کی تعیناتی عمل میں لائی ہے تاکہ ملی ٹینٹوں کو کم سے کم وقت میں مار گرایا جا سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جموں صوبے میں گزشتہ دوماہ کے دوران سیکورٹی فورسز پر حملوں کے بعد ملی ٹینٹ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جس کے پیش نظر اب جموں صوبے میں نئی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے جس کے تحت حساس علاقوں میں ’کویک رسپانس ‘ٹیموں کی تعیناتی عمل میں لا کر دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ کٹھوعہ ، ادھم پور ، ریاسی ،سانبہ، راجوری ، پونچھ اور ڈوڈہ اضلاع میں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کٹھوعہ حملے کے بعد ابھی تک سیکورٹی فورسز نے زائد از پچاس افراد کو پوچھ تاچھ کی خاطر حراست میں لیا ۔
معلوم ہوا ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے بدھ کے روز جائے وقوع کا معائنہ کیا اور وہاں پر عین شاہدین سے بھی بات کی۔
ذرائع کے مطابق اس حملے کی مختلف زاویوں سے تحقیقات شروع کی گئی ہے جبکہ ملی ٹینٹ کس طرح سے مچھیڈ علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اس کی بھی باریک بینی سے جانچ پڑتال شروع کی گئی ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ مقامی لوگوں کو بھی پوچھ تاچھ کے دائرے میں لایا گیا ہے کہ ملی ٹینٹ گھنے جنگلات تک کیسے پہنچے ۔
ذرائع نے بتایا کہ جموں صوبے کے حساس اضلاع میں پیرا کمانڈوز کی بھی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے تاکہ دہشت گردوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
دریں اثنا ادھم پور کے بسنت گڑھ ، ڈوڈہ ، راجوری اور پونچھ کے جنگلات میں سیکورٹی فورسز نے پہرے بٹھا دئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سرگرم ملی ٹینٹوں اور ان کے معاونت کاروں کو بڑے پیمانے پر تلاش کیا جارہا ہے۔