عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر// جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جائیداد کا حق انسانی حقوق کے دائرے میں آتا ہے۔
20 نومبر کو جسٹس وسیم صادق نرگل نے ایک درخواست نمٹاتے ہوئے فوج کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کی زمین پر گزشتہ 46 سال سے قبضے کے عوض کرایہ ایک ماہ کے اندر ادا کرے۔
فیصلے میں کہا گیا، “جائیداد کا حق اب صرف ایک آئینی یا قانونی حق نہیں بلکہ انسانی حقوق کے دائرے میں آتا ہے۔ انسانی حقوق کو انفرادی حقوق، جیسے رہائش، روزگار، صحت اور روزی سے منسلک کیا جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ان حقوق نے مختلف جہتیں اختیار کر لی ہیں”۔
یہ درخواست 2014 میں عبدالمجید لون نے دائر کی تھی، جن کا کہنا تھا کہ فوج نے 1978 میں لائن آف کنٹرول کے قریب کپواڑہ ضلع کے ٹنگڈھار علاقے میں ان کی 1.6 ایکڑ زمین پر قبضہ کیا تھا۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ انہیں زمین کے عوض کوئی معاوضہ یا کرایہ نہیں ملا۔
عدالت نے کہا کہ ریاست اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کسی فرد کی جائیداد میں مداخلت کر سکتی ہے لیکن یہ صرف عوامی مفاد کے لیے ہونا چاہیے اور مناسب معاوضہ ادا کرنا ضروری ہے۔
مرکزی حکومت کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ زمین پر فوج کا قبضہ نہیں ہے، تاہم ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے تصدیق کی کہ زمین 1978 سے فوج کے قبضے میں ہے۔
عدالت نے زمین کا نیا سروے کروانے کا حکم دیا، اور ریونیو حکام کی رپورٹ سے تصدیق ہوئی کہ یہ زمین 1978 سے فوج کے زیر قبضہ ہے، اور مالک کو کبھی کرایہ یا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔
عدالت نے کہا، “مذکورہ حقائق واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ مدعا علیہان نے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے قانونی طریقہ کار کے بغیر قیمتی آئینی حق سے محروم کر دیا ہے”۔
عدالت نے مزید کہا کہ ریاست اور اس کی ایجنسیاں کسی شہری کو اس کی جائیداد سے قانون کے مطابق عمل کیے بغیر محروم نہیں کر سکتیں۔
فیصلے میں آئین کی دفعہ 300A کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگرچہ اس میں معاوضہ ادا کرنے کی بات صریحاً شامل نہیں ہے لیکن اس دفعہ سے معاوضہ ادا کرنے کی ذمہ داری کا عندیہ ضرور ملتا ہے۔