عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر تعلیم نعیم اختر نے حکام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کو بدنظمی اور اوسط درجے کی کارکردگی کا مرکز بنا دیا گیا ہے، جہاں طلبہ کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیلنے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔
ایک بیان میں نعیم اختر نے جموں و کشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی مکمل اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ میں بدانتظامی کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جن میں نصابی کتب سے اہم ابواب ہٹانے اور ’اسٹیٹ‘ کے بجائے ’یو ٹی‘ لکھنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہاں تک کہ ’اسٹیٹ آف مائنڈ‘جیسے جملے کو بھی تبدیل کر کے ’یو ٹی آف مائنڈ‘ کر دیا گیا ہے۔
نعیم اختر نے کہا کہ ’’یہ مضحکہ خیز اور افسوسناک ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل چند جاہل لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو خود کو ماہر تعلیم ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے پس منظر کی جانچ ہونی چاہیے اور عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے ـ
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس معاملے میں مداخلت کریں گے اور نصاب کی تازہ کاری کے نام پر ہونے والی ان غیر معقول کارروائیوں کو روکیں گے۔
اختر نے کہا کہ اس ساری بدنظمی کے علاوہ نصابی کتب کی عدم دستیابی طلبہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ان کے تعلیمی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ تعلیم کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ طلبہ کو پرانی اور استعمال شدہ کتابوں پر انحصار کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
نعیم اختر کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورتحال جموں و کشمیر نے آمرانہ ادوار میں بھی نہیں دیکھی تھی۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کشمیری صوفی بزرگ شیخ العالم (رحمتہ اللہ علیہ) کو نصابی کتب سے نکال دیا گیا ہے اور ان کی زندگی اور تعلیمات اب کشمیر کے طلبہ کو نہیں پڑھائی جائیں گی۔
اختر نے کہا شیخ العالم (رح) کی تعلیمات اور اقوال کشمیر کی پہچان ہیں، جو برداشت، رواداری اور انسان دوستی کا پیغام دیتے ہیں۔ آخر اس تبدیلی سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال (رح) اور آغا شاہد علی جیسے نامور ادبی شخصیات کو بھی نصاب سے نکال دیا گیا ہے۔
اختر کا کہنا تھا کہ ’’اقبال عالمی شہرت یافتہ شاعر ہیں جو اپنی کشمیری شناخت پر فخر کرتے ہیں، اور آغا شاہد علی دنیا کے بہترین انگریزی شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
سابق وزیر تعلیم نے ایک نجی اسکول کے طلبہ کو امتحانی فارم دینے سے انکار پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انھوں نے کہا ’جے کے بوس کے پاس اگر دماغ نہیں تو کم از کم دل ہونا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ادارہ اب بغیر دماغ کے چل رہاہے، لیکن اسے کم از کم طلبہ کی مشکلات کا احساس ہونا چاہیے۔
اختر نے مزید کہا کہ ان نااہلیوں کے ساتھ موجودہ بورڈ سے یہ توقع کرنا مشکل ہے کہ وہ امتحانات کا عمل بغیر کسی پریشانی کے مکمل کرے گا۔
’امتحانی سیزن قریب ہے اور وزیر اعلیٰ کو فوری طور پر انتظامات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے تاکہ شفاف امتحانی عمل کو یقینی بنایا جا سکےـ