عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر// جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے 72 سالہ کشمیری شہری محمد رستم میر کی ملک بدری کے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، جس سے انہیں عارضی ریلیف ملا ہے۔ جسٹس ایم اے چودھری نے 13 دسمبر کو کیس محمد رستم میر بنام یونین ٹیریٹری جموں و کشمیرو دیگرمیں یہ حکم جاری کیا، جس کے تحت میر کو مزید احکامات تک ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے آئندہ سماعت فروری میں مقرر کی ہے۔
یہ معاملہ 1986 کا ہے جب میر قانونی طور پر واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان گئے تھے تاکہ اپنی بہن اور بہنوئی سے ملاقات کر سکیں، جو 1965 میں وہاں منتقل ہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں ان کے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات گم ہو گئیں، جس کی وجہ سے وہ وہاں پھنس گئے۔ تاہم، انہوں نے پاکستانی ویزا حاصل کرکے کسی طرح واپس کشمیر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔
واپسی کے باوجود، حکام نے انہیں مسلسل ہراساں کیا، جس کے خلاف انہوں نے 1988 میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی۔ اس پر 9 جون 1988 کو عدالت نے واضح حکم دیا کہ انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ اپنے آبائی گاؤں میں پُرامن زندگی گزار رہے تھے اور ان کے پانچ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں حکام نے دوبارہ ان کی ملک بدری کی کوششیں شروع کر دیں، جس سے ان اور ان کے خاندان کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔
میر کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اس مرحلے پر انہیں بےدخل کرنا 1988 کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوگی، ان کے بچوں کی تعلیم پر منفی اثر ڈالے گا اور ایک معمر شخص کو غیر ضروری مشکلات میں ڈال دے گا۔ عدالت نے ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام کو ملک بدری سے روک دیا اور میر کو عارضی ریلیف فراہم کیا۔
اس کیس کی اگلی سماعت 25 فروری کو ہوگی، جس میں محمد رستم میر کے مستقبل کا فیصلہ متوقع ہے۔ (بار اینڈ بنچ)