عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/زیرِ حراست عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے مہراج ملک کے ووٹ نے جموں و کشمیر کے آئندہ راجیہ سبھا انتخابات میں فیصلہ کن کردار حاصل کرلیا ہے۔
یہ پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب پیپلز کانفرنس کے ایم ایل اے سجاد لون، جو کپواڑہ ضلع کے ہندوارہ حلقے سے نمائندگی کرتے ہیں، نے ووٹنگ سے دور رہنے کا اعلان کیا۔
لون کے فیصلے کے بعد ایوان میں ارکان کی تعداد 87 رہ گئی ہے۔ اب دو نیشنل کانفرنس امیدوار شمی اوبرائے اور عمران نبی ڈار کے ساتھ بی جے پی کے امیدوار اور ریاستی صدر ست شرما کے درمیان مقابلہ سخت ہوگیا ہے۔ انتخابات 24 اکتوبر کو ہوں گے۔
ملک کے وکیل نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اُنہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے اور 18 اکتوبر کو فیصلہ سنائے گی۔
چونکہ تین امیدوار دو نشستوں کے لیے میدان میں ہیں، اس لیے وہی دو امیدوار کامیاب قرار دیے جائیں گے جنہیں سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے اس نازک مرحلے میں مہراج ملک کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے — یہ طے کرے گا کہ آیا دونوں نشستیں این سی کے امیدوار جیتیں گے یا ایک این سی اور ایک بی جے پی امیدوار۔
ایوان کے 87 اراکین میں سے ست شرما کو بی جے پی کے 28 ایم ایل ایز کی حمایت حاصل ہے، جبکہ باقی 59 غیر بی جے پی ووٹ اوبرائے اور ڈار کے درمیان تقسیم ہونے کی توقع ہے۔
اگر 59 ووٹ مساوی طور پر تقسیم ہوئے تو ایک این سی امیدوار کو 30 اور دوسرے کو 29 ووٹ مل سکتے ہیں، جس سے دونوں بی جے پی کے امیدوار پر برتری حاصل کر لیں گے۔ تاہم اگر مہراج ملک کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ ملی تو عمران نبی ڈار اور ست شرما کے درمیان ٹائی ممکن ہے۔
جموں و کشمیر میں راجیہ سبھا کی چار نشستیں ہیں جن میں سے تین پر این سی کو محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم دو نشستوں پر جہاں ست شرما کا مقابلہ شامی اوبرائے اور عمران نبی ڈار سے ہے، سجاد لون کے بائیکاٹ کے باعث مقابلہ نہایت حساس بن گیا ہے۔
پی ایس اے کے تحت زیرِ حراست عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے مہراج ملک راجیہ سبھا انتخابات میں کنگ میکر کے طور پر اُبھرے
