عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ہے کہ پاکستانی ملی ٹینٹوں کی دراندازی اب واحد مسئلہ رہ گیا ہے کیونکہ مقامی سطح پر ملی ٹینسی کی بھرتی اس سال صرف ایک تک محدود رہ گئی ہے، جو پہلے کبھی 150 سے 200 سالانہ ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب عام لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ان کا مستقبل ہندوستان کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔
ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلگام کے بائسرن وادی، جہاں 22 اپریل کو ملی ٹینٹوں کے حملے میں 26 شہری مارے گئےتھے کو حملے سے صرف تین دن قبل کھولا گیا تھا اور یہ ایک پرائیویٹ آپریٹر بغیر سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کی اجازت کے چلا رہا تھا۔سنہا نے کہا پاکستانی ملی ٹینوں نے ریکی کی اور بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنایا۔ یہ بھارت کی روح پر حملہ تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار عام لوگ پاکستان اور ملی ٹینٹوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جو پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا تھا۔
سنہا کے مطابقملی ٹینسی کے خلاف جدوجہد میں عوام کی حمایت سب سے اہم ہے، اور اب یہ حمایت حکومت کو حاصل ہو چکی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پہلگام واقعے کے بعد جو سیاحتی مقامات بند کئے گئے تھے، وہ آہستہ آہستہ دوبارہ کھولے جا رہے ہیں۔ تاہم، بائسرن وادی ابھی نہیں کھولی گئی کیونکہ امرناتھ یاترا جاری ہے اور وہاں تک کوئی سڑک بھی موجود نہیں ہے۔بائسرن کو مکمل سیکورٹی جائزے کے بعد ہی کھولا جائے گا۔
سنہا نے کہا کہ 22 اپریل کے حملے میں ملوث ملی ٹینٹ پاکستانی تھے اور این آئی اے پیشہ ورانہ انداز میں تحقیقات کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب صرف ایک ہی مسئلہ باقی ہے اور وہ ہے ’’پاکستانی ملی ٹینٹوں کی دراندازی۔
اب لوگوں کو احساس ہو چکا ہے کہ پاکستان ان کے مفادات پر ضرب لگا رہا ہے اور ان کا مستقبل بھارت سے جڑا ہے۔سنہا کے مطابق، مقامی بھرتیاں پچھلے سال چھ اور اس سال صرف ایک تک محدود رہیں، جبکہ تمام حالیہ حملے غیر ملکی ملی ٹیٹوں نے کئے ہیں۔
انہوں نے بتایاوزیراعظم نے واضح کر دیا ہے کہ اب کسی بھی ملی ٹینٹوں حملے کو جنگ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ ‘آپریشن سندور’ ابھی جاری ہے۔پہلگام حملے کے بعد ملی ٹینٹوں کے گھروں پر بلڈوزر ایکشن کے بارے میں سنہا نے کہا کہ کسی بے گناہ شخص کے گھر کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ تعلقات پر انہوں نے کہا کہ دونوں کے درمیان بات چیت جاری ہے اور جو مسائل ہیں وہ باہمی طور پر حل کیے جاتے ہیں۔اپنے پانچ سالہ دور حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ جب وہ جموں و کشمیر آئے تو دو بڑے مسائل تھے۔ بھارتی ریاست کی مکمل عملداری قائم کرنا اور جموں و کشمیر کو مکمل طور پر بھارت کے ساتھ جوڑنا،میں مطمئن ہوں کہ ان دونوں اہداف کو وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں حاصل کر لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہڑتالیں، پتھراؤ اور بیرونی ایجنڈے پر چلنے والی احتجاجی سیاست ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔30-32 سال بعد محرم کے جلوس نکالے گئے، اسکول و کالج معمول پر چل رہے ہیں، سینما گھر کھلے ہیں اور عام آدمی کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ جموں کشمیر کی معیشت صرف دو سال میں دوگنی ہو چکی ہے۔
روزگار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ’’یہ بہت بڑی تبدیلی ہے کہ نوجوان اب نوکری چاہتے ہیں، نہ کہ پتھر یا ہتھیار۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں40,000 سے زائد سرکاری نوکریاں شفاف طریقے سے دی گئیںاور سیاحت، صنعت اور خود روزگار میں بھی کئی مواقع پیدا کیے گئے۔
پہلگام حملے کے بعد سیاحت کی صورتحال پر انہوں نے کہاکچھ وقت کے لیے سیاح آنا بند ہو گئے تھے، لیکن حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں اب حالات بدل چکے ہیں۔ امرناتھ یاترا جاری ہے اور ہوٹلوں کی بکنگ مکمل ہو چکی ہے۔ سونمرگ، پہلگام، اور سری نگر میں بھی اچھی خاصی سیاحتی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چار لاکھ یاتری ہمارے سفیر بنیں گے جو واپس جا کر 40 لاکھ افراد کو جموں و کشمیر کی امن کی تصویر دکھائیں گے۔
’حملےکے تین دن قبل کھولی گئی تھی بائسرن وادی ،ایک نجی ٹور آپریٹر بغیر اجازت کے کام کر رہا تھا‘ صرف دراندازی باقی، مقامی ملی ٹینسی تقریباً ختم:منوج سنہا
