سری نگر/تاریخی جامع مسجد سرینگر میں جمعہ کے روز ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سینئر مذہبی و سیاسی رہنما میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے عید کے موقع پر نمازِ عید کی اجازت نہ دیے جانے، ایران و غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور احمد آباد میں ایئر انڈیا طیارے کے المناک حادثے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔
خطاب کے آغاز میں میرواعظ نے کہا کہ’ہم عید کے بعد پہلی بار یہاں ملاقات کر رہے ہیں، جب نہ ہمیں عیدگاہ اور نہ ہی جامع مسجد میں نمازِ عید ادا کرنے کی اجازت ملی۔ دونوں مقامات کو مقفل کر دیا گیا اور مجھے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔‘
انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر سے براہِ راست سوال کرتے ہوئے کہا کہ’جب آپ عوام کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں اور اسلام کی روح کا احترام ظاہر کرتے ہیں تو پھر کشمیری مسلمانوں کو ان کے بنیادی مذہبی حق کی ادائیگی سے کیوں روکا جاتا ہے؟ اگر کوئی خدشات یا تحفظات ہیں تو ان کی وضاحت کریں۔
میرواعظ نے حکومت کی ان پابندیوں کو غیر انسانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس ‘نارملسی’ کی بات دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کی جاتی ہے، وہ ایک فریب ہے۔ یہاں عوام کے لیے کوئی حقیقی سیاسی یا انتظامی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ منتخب حکومت عوامی حقوق کے تحفظ میں مکمل ناکام رہی ہے۔وہ ہمیشہ یہ بہانہ نہیں بنا سکتی کہ ان کے پاس اختیارات محدود ہیں۔ عوام بجا طور پر ان سے عملی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔
اپنے خطاب میں میرواعظ نے ایران پر حالیہ اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ’اس حملے میں خواتین، بچے اور اعلیٰ فوجی افسران شہید ہوئے، جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے اسرائیل کو ایک آمر ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے بعد اب پورے مشرق وسطیٰ کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کریں۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام فلسطینیوں اور ایرانیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔
میرواعظ نے احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کیا۔
خطاب کے اختتام پر میرواعظ نے ایک بار پھر جموں و کشمیر کے عوام سے اپیل کی کہ وہ موجودہ چیلنجز کا سامنا صبر، یکجہتی اور حکمت کے ساتھ کریں اور اپنے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کے لیے پرامن جدوجہد جاری رکھیں۔