عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے، جب 6 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی مقدس شہر کٹرا سے وادی کشمیر کے لیے وندے بھارت ایکسپریس کو روانہ کریں گے۔ یہ محض ایک ریلوے ٹرین کی روانگی نہیں، بلکہ ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو سب سے پہلے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے ایک صدی سے بھی پہلے دیکھا تھا۔ شیوالک اور پیر پنجال کے دشوار گزار پہاڑی سلسلوں کو عبور کرتے ہوئے، یہ منصوبہ صرف تکنیکی برتری کا مظہر نہیں بلکہ قومی یکجہتی، علاقائی ربط اور جدید ہندوستانی انفراسٹرکچر کی شاندار علامت بن کر ابھر رہا ہے
اس تاریخی موقع پر وزیر اعظم، دنیا کے سب سے اونچے ریلوی پل دریائے چناب پر تعمیر شدہ چناب آرچ برج — کا بھی باضابطہ افتتاح کریں گے، جو سطح دریا سے 359 میٹر بلند ہے، یعنی ایفل ٹاور سے بھی 35 میٹر اونچا۔
ریلوے حکام کے مطابق،’یہ وہی خواب ہے جسے 19ویں صدی میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے سب سے پہلے دیکھا تھا، اور آج یہ بھارت کی آزاد تاریخ کے سب سے بڑے انفراسٹرکچر کارناموں میں سے ایک میں تبدیل ہو رہا ہے۔‘اس منصوبے کو 1983 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے از سر نو زندہ کیا اور جموں-اُدھم پور-سرینگر ریلوے لائن کا سنگ بنیاد رکھا۔ تاہم تکنیکی، موسمی اور جغرافیائی مشکلات کے سبب منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار رہا۔1996 اور 1997 میں وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا اور آئی کے گجرال نے مختلف مقامات پر سنگ بنیاد رکھے۔ 2002 میں اس منصوبے کو قومی پروجیکٹ کا درجہ ملا۔ آج اس 272 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے 209 کلومیٹر پہلے ہی مرحلہ وار مکمل ہو چکا ہے۔ آخری حصہ کٹرا سے سانگلدان تک رواں سال فروری میں مکمل ہوا۔
کشمیر ریل منصوبے میں کل 38 سرنگیں اور 927 پل شامل ہیں۔ ان میں سب سے قابلِ ذکر چناب پل ہے، جو انجینئرنگ کا ایک عالمی عجوبہ بن چکا ہے۔ حکام کے مطابق، اس منصوبے کے تحت 215 کلومیٹر نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں، جن سے 70 سے زائد دور دراز دیہات کو فائدہ پہنچا۔ریلوے حکام کے بقول، ’کشمیر ٹرین پروجیکٹ، جو کبھی ایک شاہی خواب تھا، اب قومی اتحاد اور انجینئرنگ کی برتری کی علامت بن چکا ہے۔‘
اس تاریخی منصوبے پر مقامی لوگوں کی جانب سے زبردست جوش و خروش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کٹرا، ریاسی، ادھمپور اور وادی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ وندے بھارت ٹرین کی روانگی نہ صرف سفری سہولیات کو بہتر بنائے گی بلکہ اس سے خطے کی معیشت کو بھی نئی زندگی ملے گی۔
کٹرا کے ایک مقامی تاجر راجیو کھجوریہ کا کہنا ہے:’کٹرا میں ماتا ویشنو دیوی یاترا کے دوران ہر سال لاکھوں یاتری آتے ہیں۔ اگر اب کشمیر تک براہِ راست ریل رابطہ قائم ہو جائے گا، تو یہ نہ صرف یاترا کو مزید آسان بنائے گا بلکہ مقامی کاروبار کو بھی بے پناہ فائدہ پہنچے گا۔‘سرینگر سے تعلق رکھنے والے طالب علم باسط احمد نے کہا:’یہ ایک انقلابی قدم ہے۔ اب ہمیں جموں یا دہلی جانے کے لیے سڑکوں کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وقت بچے گا، سفر آرام دہ ہوگا اور حادثات کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔
ریاسی ضلع کے ایک دیہاتی محمد اسلم نے کہا:’ہمارے گاؤں تک سڑک بھی کئی سال پہلے ہی بنی تھی، اب ریل آنے سے یہاں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ لوگ باہر جا سکیں گے، اور باہر کے لوگ یہاں آئیں گے۔‘اسی طرح کئی دیگر شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل جغرافیائی فاصلوں کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ دلوں کو جوڑنے والا اقدام ہے، جو آنے والے وقت میں جموں و کشمیر کی تقدیر بدل سکتا ہے۔