بارہمولہ// چھ ماہ قبل ایک انسانی سمگلنگ نیٹ ورک سے بچائی گئی چار نابالغ روہنگیا لڑکیاں کانسپورہ، بارہمولہ کے چلڈرن-کم-شیلٹر ہوم سے پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئی ہیں، جس سے ان شیلٹر ہومز کی سیکیورٹی اور نگرانی کے حوالے سے سنگین سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ یہ شیلٹر ہوم اُن بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے قائم کیا گیا ہے جو کسی بھی قسم کی ذیادتی یا مشکل حالات کا شکار ہوں۔
ذرائع کے مطابق، پولیس نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ ایف آئی آر نمبر 9/2025 درج کر لیا ہے اور تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
حکام سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لے رہے ہیں اور مختلف شواہد کو اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ لڑکیاں کس طرح لاپتہ ہوئیں، آیا وہ خود فرار ہو گئیں یا کسی نے انہیں اغوا کیا۔
یہ شیلٹر ہوم مربوط اطفال تحفظ سکیم (آئی سی پی ایس) کے تحت چلایا جا رہا ہے اور اس کی نگرانی ضلعی سوشل ویلفیئر آفیسر کے تحت کی جاتی ہے، جو ضلعی چائلڈ پروٹیکشن آفیسر کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں۔ تاہم، اس واقعے نے شیلٹر ہوم کی سیکیورٹی اور انتظامی امور میں ممکنہ کمیوں کو بے نقاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ ان چار نابالغ لڑکیوں کو چھ ماہ قبل بارہمولہ پولیس نے ایک بڑے انسانی سمگلنگ نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے دوران بچایا تھا۔ یہ آپریشن اُشکورہ علاقے میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیا گیا، جہاں شکیل احمد بھٹ کے گھر سے تین روہنگیا لڑکیاں بازیاب کرائی گئیں۔
تحقیقات کے دوران، بھٹ نے اعتراف کیا کہ اس نے ایک اور لڑکی کو مہراج احمد تانترے کے ہاتھوں فروخت کیا تھا، جو کنلی باغ کا رہائشی ہے۔ پولیس نے تانترے کے گھر پر بھی چھاپہ مارا اور چوتھی لڑکی کو بازیاب کر لیا تھا۔ دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور نیٹ ورک کے دیگر اراکین کی تلاش جاری تھی۔
یہ چاروں لڑکیاں بعد میں شیلٹر ہوم میں منتقل کر دی گئی تھیں تاکہ ان کی حفاظت اور بہبود یقینی بنائی جا سکے، لیکن ان کا پراسرار طور پر لاپتہ ہو جانا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ آیا یہ اغوا کا معاملہ ہے، یا انہیں کسی دھمکی یا دباؤ کے تحت فرار ہونے پر مجبور کیا گیا؟
ذرائع کے مطابق، شیلٹر ہوم میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں میں اس بات کا کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ لڑکیاں کس طرح غائب ہوئیں، جبکہ ان کے نفسیاتی علاج کے لیے تعینات مشیران (کاؤنسلرز) نے اب تک شیلٹر ہوم کا دورہ نہیں کیا، جو ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی شدت سے ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ اس قسم کے اداروں میں سیکیورٹی کے نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے، اور ان کے انتظامات میں زیادہ جوابدہی اور نگرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ حکام نے یقین دلایا ہے کہ تحقیقات کو تیز کیا جائے گا اور اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کو ان لڑکیوں کے بارے میں کوئی معلومات حاصل ہوں تو وہ فوری طور پر متعلقہ حکام سے رابطہ کریں تاکہ ان کی بحفاظت بازیابی ممکن ہو سکے۔