عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے سابق را چیف اے ایس دلت کی کتاب دی چیف منسٹر اینڈ دی اسپائی کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ محض ان کے تخیل کی پیداوار ہے۔
ڈاکٹر فاروق نےکہا کہ یہ کتاب ایک “افسانہ” ہے جسے دلت حقائق پر مبنی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کتاب میں دلت نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر فاروق نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کی نجی طور پر حمایت کی تھی، جبکہ عوامی سطح پر مخالفت کی۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے ڈاکٹر فاروق نے کہا، ’’مجھے اور میرے بیٹے عمر عبداللہ کو 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے وقت کئی مہینوں تک نظربند رکھا گیا۔ ہمیں اس لیے قید میں رکھا گیا کیونکہ ہمارا مؤقف اس کی مخالفت میں تھا۔ دلت کی کتاب فضول اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔
ادھر دلت نے اپنا دفاع کیا اور کہا کتاب حقائق پر مبنی ہے ـ
اے ایس دلت کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف کچھ نہیں کہا، اور ان کی کتاب حقائق پر مبنی ہے۔
دلت نے کہا کہ کتاب کا پیش لفظ سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایم کے نارائنن نے لکھا ہے، اور یہ کتاب حقیقت سے قریب ترین بیان ہے۔
انہوں نے کہا، آپ فاروق صاحب سے پوچھ لیں، میں نے زندگی میں کبھی ان کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ لیکن لوگ کتاب کا پیش لفظ ضرور پڑھیں جو ایم کے نارائنن نے لکھا ہے۔ نارائنن جی کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے؛ جو کچھ انہوں نے لکھا وہ سچائی پر مبنی ہے۔
کتاب میں دلت لکھتے ہیں کہ فاروق عبداللہ نے دہلی کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ 2020 میں دلت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم مدد کرتے‘‘ اگر اعتماد میں لیا جاتا۔
کتاب کے مطابق، فاروق عبداللہ نے کہا، ’’ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟‘‘
دلت لکھتے ہیں کہ عبداللہ سمجھتے تھے کہ اگر قومی کانفرنس کو اسمبلی میں اعتماد میں لیا جاتا تو وہ اس اقدام کی حمایت کر سکتے تھے۔
کتاب میں اشارہ دیا گیا ہے کہ فاروق عبداللہ کو اصل اعتراض طریقہ کار اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں پر تھا، نہ کہ اقدام پر۔
فاروق عبداللہ اگست 2019 میں نظر بند کیے گئے تھے اور تقریباً سات ماہ زیر حراست رہے۔
دلت نے لکھا کہ رہائی کے بعد فاروق عبداللہ نے پوچھا، ’’کر لو اگر کرنا ہے، پر یہ گرفتاری کیوں؟‘‘
دلت کے مطابق، آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل فاروق اور عمر عبداللہ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے دہلی میں ملاقات کی تھی، تاہم اس ملاقات کی تفصیلات آج تک عوام کے سامنے نہیں آئیں۔
کتاب میں فاروق اور عمر عبداللہ کے درمیان فرق کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ دلت لکھتے ہیں کہ فاروق دہلی کے ساتھ توازن قائم رکھنے کے خواہاں تھے جبکہ عمر زیادہ دہلی کے ساتھ چلنے کے حق میں تھے۔
دلت نے 2014 کا ایک واقعہ بیان کیا جب انٹیلی جنس بیورو نے ان سے لندن میں فاروق عبداللہ کا نمبر مانگا، جسے انہوں نے مرکز کی جانب سے این سی لیڈر کے ساتھ غیر واضح رویے کے طور پر دیکھا۔
انہوں نے لکھا، ’’دہلی چاہے جتنا بھی فاروق کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرے، وہ اسے کبھی نظر انداز نہیں کر سکتی۔
دلت نے یہ بھی کہا کہ فاروق عبداللہ نے اپنے والد شیخ عبداللہ سے مختلف سیاسی راستہ اپنانے کی کوشش کی، مگر ایسی وراثت سے الگ ہونا آسان نہیں ہوتا۔