عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے سبب جموں و کشمیر کے سرحدی دیہات میں خوف و دہشت کی فضا قائم ہے، جہاں مقامی باشندے نہ صرف اپنی فصلیں وقت سے پہلے کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں بلکہ متعدد مقامات پر زیر زمین بنکرز کی تیاری یا مرمت کا عمل بھی زور پکڑ چکا ہے۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی افواج کی جانب سے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران وقفے وقفے سے کی جانے والی بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ نے ایل او سی سے متصل پونچھ، راجوری، مینڈھر، نوشہرہ،کپواڑہ ، اوڑی اور سندربنی کے دیہی علاقوں میں رہنے والے ہزاروں افراد کی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔راجوری کے ایک شہری، رفیق احمد نے بتایا، ’ہم رات بھر جاگ کر اپنے بچوں کو محفوظ رکھتے ہیں اور دن کے وقت خستہ حال بنکرز کی مرمت کرتے ہیں تاکہ اگر حالات مزید بگڑیں تو کم از کم پناہ تو ملے۔‘
نوشہرہ کے کسان غلام حسین نے بتایا کہ فصل ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہوئی، لیکن روزانہ فائرنگ کے خدشے کے پیش نظر انہیں وقت سے پہلے ہی گندم اور دیگر اجناس کاٹنا پڑ رہی ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر آج نہیں کاٹی تو کل گولے گر سکتے ہیں، سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔سرحدی علاقوں میں حالیہ برسوں میں فروغ پانے والی مقامی سیاحت بھی اس کشیدگی کی لپیٹ میں آ گئی ہے۔ کیرن، گریز اور ٹنگڈار جیسے مقامات پر ہوٹل اور ہوم سٹے مالکان بکنگ کینسل ہونے سے پریشان ہیں۔
ایک مقامی ہوم سٹے مالک نے بتایا ’ہمارے خواب تھے کہ اس سال آمدنی بہتر ہو گی، لیکن اب صرف بنکرز اور فائرنگ کی خبریں ہیں۔‘معلوم ہوا ہے کہ گریز اور کیرن جیسے علاقوں میں سیاحوں کی آمد رک گئی ہے، جہاں گزشتہ برسوں میں سیاحتی رش عام تھا۔گریز کے رہائشی تنویر عالم نے کہا، ’پچھلے سال اسی وقت گریز سیاحوں سے بھرا ہوا تھا، مگر اس سال پہلگام حملے کے بعد سے ایک بھی سیاح نہیں آیا۔‘کیرن میں ہوم سٹے چلانے ایک مقامی شہری نے بتایا ’پچھلے برس ہمارے ہاں ہفتوں پہلے سے بکنگ ہو جاتی تھی، مگر اب سب کچھ خالی ہے۔ سیاحوں کی خاموشی گولہ باری سے زیادہ گونج رہی ہے۔‘
سرحدی علاقوں میں خوف و دہشت کا سایہ، فصلیں وقت سے پہلے کاٹنے اور زیرِ زمین بنکر تیار کرنے کا عمل جاری
