عظمیٰ ویب ڈیسک
جموں// جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے واضح طور پر فیصلہ دیا ہے کہ خواتین وکلاء چہرہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتیں، کیونکہ یہ بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) کے ڈریس کوڈ کے اصولوں کے خلاف ہے۔
جسٹس موکشا کھجوریہ کاظمی اور جسٹس راہول بھارتی پر مشتمل بینچ نے اس حوالے سے کہا کہ بی سی آئی کے قواعد کے تحت وکلاء کے لیے مقررہ لباس میں چہرہ ڈھانپنے کی اجازت شامل نہیں ہے۔ عدالت نے عدالتی کاروائیوں میں وقار اور پیشہ ورانہ شناخت کی اہمیت پر زور دیا۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون نے وکیل کی حیثیت سے چہرہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش ہونے کی کوشش کی۔ جب عدالت نے ان سے شناخت کے لیے چہرہ کھولنے کی درخواست کی تو انہوں نے اسے اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے انکار کر دیا۔ اس پر عدالت نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو بار کونسل کے ڈریس کوڈ کے قانونی پہلوؤں کی تصدیق کے لیے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
رپورٹ پیش ہونے کے بعد عدالت نے بی سی آئی قواعد کے تحت چیپٹر IV (پارٹ VI) کا جائزہ لیا، جو عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلاء کے ڈریس کوڈ کی وضاحت کرتا ہے۔
عدالت نے اپنے مشاہدات میں کہا کہ ان قواعد کے تحت خواتین وکلاء کو سیاہ لمبی آستین والی جیکٹ یا بلاؤز، سفید بینڈ، ساڑھی یا دیگر روایتی ملبوسات کے ساتھ سیاہ کوٹ پہننے کی اجازت ہے، لیکن ان میں چہرہ ڈھانپنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
جسٹس کاظمی نے اپنے ریمارکس میں کہا، “کہیں بھی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ ایسا کوئی لباس (چہرہ ڈھانپنا) عدالت میں پیش ہونے کے لیے قابل قبول ہے”۔
جسٹس بھارتی نے اپنے حکم میں کہا کہ عدالت کے لیے وکلاء کی واضح شناخت ضروری ہے تاکہ عدالتی کارروائیوں کا تقدس برقرار رکھا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چہرہ کھولنے سے انکار کرنے کی صورت میں وہ خاتون ناقابل شناخت ہو گئیں، جس کی وجہ سے انہیں وکیل کے طور پر پیش ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس بھارتی نے اپنے عبوری حکم میں کہا، “اس عدالت کے پاس اس خاتون کی شناخت، بطور شخص اور بطور پیشہ ور، کی تصدیق کا کوئی موقع یا بنیاد نہیں ہے”۔
عدالت نے مزید خبردار کیا کہ درخواست گزاروں کے مقدمے کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کیا جا سکتا ہے اگر مناسب نمائندگی کو یقینی نہ بنایا گیا۔