عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے جمعرات کو جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کے اغوا کیس کے ٹرائل کے حوالے سے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں اجمل قصاب کو بھی منصفانہ ٹرائل دیا گیا تھا‘‘۔ عدالت نے اشارہ دیا کہ ملک کا ٹرائل تہاڑ جیل کے اندر ہی کروانے کے لیے خصوصی عدالت قائم کی جا سکتی ہے۔
جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ سنہ 2022 میں جموں کی ایک ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف سی بی آئی کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔ ٹرائل کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ ملک، جو تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، کو روبرو پیش کیا جائے تاکہ وہ روبیعہ سید اغوا کیس میں استغاثہ کے گواہوں سے جرح کر سکیں۔
بنچ نے سوال اٹھایا، ’’آن لائن جرح کیسے ممکن ہے؟ جموں میں تو نیٹ ورک کا مسئلہ بھی ہے… ہمارے ملک میں اجمل قصاب کو بھی قانونی امداد فراہم کی گئی تھی اور ہائی کورٹ میں منصفانہ ٹرائل دیا گیا تھا‘‘۔
سی بی آئی کے وکیل، سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو ٹرائل کے لیے جموں لے جانا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک جان بوجھ کر حیلے بہانے کر رہے ہیں، جیسے وکیل کی خدمات حاصل نہ کرنا اور خود عدالت میں پیش ہونے کی درخواست کرنا۔
مہتا نے عدالت کو یاسین ملک کی ایک تصویر دکھائی، جس میں وہ مبینہ طور پر دہشت گرد حافظ سعید کے ساتھ ایک سٹیج پر موجود تھے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ٹرائل جیل کے اندر بھی منعقد کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے جج کو قومی دارالحکومت بلایا جا سکتا ہے۔ تاہم بنچ نے کہا کہ حتمی فیصلہ لینے سے پہلے تمام ملزمان کے مؤقف کو سنا جائے گا۔
عدالت نے یہ معاملہ 28 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے سی بی آئی کو ہدایت دی کہ وہ اپنی درخواست میں ترمیم کر کے تمام ملزمان کو فریق بنائے۔
واضح رہے کہ 8 دسمبر 1989 کو روبیعہ سعید، جو اُس وقت کے سیاستدان مفتی محمد سید کی بیٹی ہیں، کو سرینگر میں لل دید ہسپتال کے قریب سے اغوا کیا گیا تھا۔ پانچ دن بعد وی پی سنگھ کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے پانچ دہشت گردوں کی رہائی کے بدلے روبیعہ کو رہا کیا تھا۔
یاسین ملک اس وقت تہاڑ جیل میں قید ہیں، جہاں انہیں مئی 2023 میں ایک دہشت گردی فنڈنگ کیس میں خصوصی این آئی اے عدالت نے سزا سنائی تھی۔