عظمیٰ ویب ڈیسک
اقوام متحدہ// ترک صدر رجب طیب اردوان نے پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی سالانہ تقریر کے دوران کشمیر کا ذکر نہیں کیا، جو ایک اہم تبدیلی ہے کیونکہ وہ 2019 سے مسلسل کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں۔
یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منگل کو اپنے خطاب کے دوران اسرائیل-غزہ تنازع پر توجہ مرکوز کی اور اقوام متحدہ کو فلسطینی علاقے کو “دنیا کا سب سے بڑا قبرستان” بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ تاہم اس سال کشمیر کا ذکر نہ کرنا قابل غور رہا۔
ترکی کے صدر نے 2019 میں بھارت کے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد سے کئی مرتبہ کشمیر کے مسئلے پر تنقید کی تھی اور بھارت کی پالیسیوں کو خطے میں امن و استحکام کے فقدان کا باعث قرار دیا تھا۔ انہوں نے ہر سال کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا، جسے بھارت نے ہمیشہ اپنے داخلی معاملات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا۔
اس سال اردوان کی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہ ہونے کو سفارتی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جا رہا ہے، جس کا مقصد بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا ہو سکتا ہے۔ بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت نے ممکنہ طور پر اردوان کے موقف میں نرمی پیدا کی ہے۔
اردوان نے 2019 میں اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ “کشمیر کے عوام کو اپنے پاکستانی اور بھارتی ہمسایوں کے ساتھ محفوظ مستقبل کے لیے، مسئلے کو مکالمے اور انصاف کی بنیاد پر حل کرنا ضروری ہے، نہ کہ جھگڑوں کے ذریعے”۔
2020 میں بھی انہوں نے کشمیر کو “ایک سلگتا ہوا مسئلہ” قرار دیا اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر تنقید کی تھی۔
بھارت نے اردوان کے ان بیانات کا سخت جواب دیا تھا اور ترکی کو دوسری قوموں کی خودمختاری کا احترام کرنے کی تلقین کی تھی۔ بھارت کے نمائندے اقوام متحدہ میں اردوان کے بیانات کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے رہے ہیں۔
ترکی کے صدر نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ 2020 میں پاکستان کے دورے کے دوران انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر پر پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
اردوان کا رواں سال اقوام متحدہ میں کشمیر پر کوئی ذکر نہ کرنا اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ ترکی کی عالمی ترجیحات میں تبدیلی آ رہی ہے اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے، جس کا تعلق بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی طاقت سے ہے۔