سری نگر//جموں وکشمیرحکومت کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد 890 مرکزی قوانین کی توسیع ، 205 ریاستی قوانین کی منسوخی اور 129 قوانین میں ترمیم سے جموںوکشمیر یوٹی میں تمام طبقات کے لئے مساوی اِنصاف کا نظام قائم کیا گیا ہے ۔
دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد متعدد مرکزی قانون سازی کی عمل آوری جیسے درج فہرست قبائل او ردیگر روایتی جنگلاتی باشندوں ( فارسٹ رائٹس کی پہچان) ایکٹ 2007 ، درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل ( پریوینشن آف ایٹروسائٹس ) ایکٹ 1954اور دیگر قو انین سے جموںوکشمیر میں ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو اہے۔
وزیر اعظم کی رہنمائی میں جموں وکشمیر ایک نئی صبح کا مشاہدہ کررہا ہے ۔قبائلیوں کو زمین کے حقوق مل رہے ہیں ، مکمل شفافیت سے ریکارڈ مدت کے اَندر ہزاروں سرکاری نوکریاں فراہم کی گئی ہیں اور خواتین ، پسماندہ اور کمزور گروہوں کو بااِختیار بنانے کے لئے بڑے اَقدامات کئے گئے ہیں۔
جموںوکشمیر اِنتظامیہ نے سماجی او رتعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کو ایک بڑی راحت دیتے ہوئے ان کی آمدنی کی حد 4.50 لاکھ روپے سے بڑھا کر 8لاکھ روپے کی ہے جس سے وہ جموںوکشمیر ریزرویشن ایکٹ 2004 کی دفعات کے مطابق ریزرویشن کے فوائد حاصل کرسکیں گے ۔
کمزور طبقات جیسے درج فہرست قبائل ، دیگر روایتی جنگلات کے باشندوں ، درج فہرست ذاتوں اور صفائی کرمچاریوں کے حقوق کو اَب متعلقہ ایکٹ کے اطلاق سے یقینی بنایا گیا ہے ۔ اَب بچوں اور بزرگ شہریوں کے حقوق کو یقینی بنایا جارہا ہے ۔
ایک منصفانہ اور مساوی معاشرے کی تشکیل کے لئے ریزرویشن کے قوانین میں ترمیم کی گئی ہے تاکہ پہاڑی بولنے والے لوگوں اور معاشی طور پر کمزور طبقات جیسے چھوڑے ہوئے زمروں کو ریزرویشن کے فوائد فراہم کئے جائیں ۔
اِسی طرح 73 ویں اور 74ویں آئینی ترامیم کے نفاذ نے جموں وکشمیر میں نچلی سطح پر جمہوریت کو ایک نئی زندگی دی ہے ۔ اگر چہ جموںوکشمیر یوٹی میں تین درجے کا نظام دیر سے عملایا گیاہے ،جموںوکشمیر اِس نظام میں ایک بہترین اور مو¿ثر مثال کے طور پر اُبھرا ہے۔
ٍڈی ڈی سیز اور بی ڈی سیز کے دفاتر کو اِدارہ جاتی بنانے کی طرف قدم ، 44.92 کروڑ روپے کی لاگت سے پنچایتی راج نظام کی کارکردگی کو تقویت ملی اور اسے مستقبل میں کمیونٹی کی ترقی کا معاون بنایا گیا۔
پی آر آئیز کے اِختیار میںنچلی سطح پر ترقیاتی منصوبوں اور پالیسیوں کے مو¿ثر عملانے کے لئے کافی وسائل رکھے گئے ہیں۔ 2019ءکے بعد جب جموںوکشمیر کا بجٹ ملک کی پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو اِس میں بہتر حکمرانی اور گراس روٹ جمہوریت کو مضبوط کرنے کا ہدف ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا جاتا ہے۔
سابقہ ریاست جموںوکشمیر میں موجود گیارہ زمینی قوانین پر انے ، رجعت پسند ، اَندرونی طور پر متضاد اور فرسودہ قوانین تھے جن میں جدید ، ترقی پسند اور عوام دوست دفعات شامل تھیں۔ نئے اَراضی قوانین نہ صرف جموںوکشمیر میں زائد اَز 90 فیصد اراضی کو تحفظ فراہم کریں گے بلکہ زراعتی شعبے کو فروغ دینے ، تیزی سے صنعت کاری ، اِقتصادی ترقی میں مدد اور جموںوکشمیر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں بھی مدد کریں گے ۔
منسوخ شدہ قوانین پرانی زرعی معیشت کی خدمت کے لئے بنائے گئے تھے اور جدید معاشی ضروریات کے لئے ان میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ اِس کے علاوہ وہ ابہام ، تضادات اور بے کاریوں سے دوچار تھے اور بہت سے معاملات میں واضح طور پر رجعت پسند تھے۔