عظمیٰ ویب ڈیسک
نئی دہلی/دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز ملی ٹینسی مالی معاونت کے ایک کیس میں گرفتار بارہمولہ سے رکن پارلیمان شیخ عبدالرشید عرف انجینئر رشید کی باقاعدہ ضمانت کی درخواست پر قومی تحقیقاتی ایجنسی کو نوٹس جاری کیا۔
انجینئرشید اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ انہیں 2019 میں این آئی اے نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یواے پی اے) کے تحت ملی ٹینسی کی مالی معاونت کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔ اب انہوں نے ٹرائل کورٹ کے 21 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے، جس میں ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ، انجینئررشید نے اپنے خلاف فرد جرم کے فیصلے کو بھی دوسری اپیل میں چیلنج کیا ہے۔ سماعت کے دوران این آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے میں 1104 دن کی تاخیر ہوئی ہے، اور قانونی تقاضوں کے مطابق 90 دن سے زائد کی تاخیر کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم، انجینئررشید کے وکلا، ایڈووکیٹ آدتیہ وادھوا اور وکھیت اوبرائے نے موقف اختیار کیا کہ اس تاخیر کو جواز فراہم کیا جا سکتا ہے اور 90 دن کی مدت کو سختی سے لاگو نہیں کیا جانا چاہیے، خاص طور پر جب معاملہ کسی فرد کی زندگی اور آزادی سے متعلق ہو۔عدالت نے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے تاخیر کی معافی کی درخواست پر نوٹس جاری کیا اور سماعت کی اگلی تاریخ 29 جولائی 2025 مقرر کر دی۔
یاد رہے کہ انجینئررشید کو اگست 2019 میں(یو اے پی اے )کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ قید کے دوران ہی انہوں نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور وزیر اعلیٰ جموں و کشمیر عمر عبداللہ کو 2 لاکھ 4 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔
سال 2022 میں، پٹیالہ ہاؤس میں قائم NIA کی عدالت نے انجینئررشید اور دیگر معروف شخصیات جن میں حافظ سعید، سید صلاح الدین، یاسین ملک، شبیر شاہ، مسرت عالم، ظہور احمد وٹالی، بٹہ کراٹے، آفتاب احمد شاہ، اوتار احمد شاہ، نعیم خان، اور بشیر احمد بٹ عرف پیر سیف اللہ شامل ہیں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ یہ الزامات جموں و کشمیر میں ملی ٹینسی کی مالی معاونت کی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے۔
این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جیش محمد، اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ جیسے شدت پسند گروپوں نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر عام شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے حملے منظم کیے۔تحقیقات کے مطابق، آل پارٹی حریت کانفرنس کو 1993 میں علیحدگی پسند سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، اور اس کو مالی مدد خفیہ ذرائع جیسے حوالہ کے ذریعے فراہم کی گئی۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ حافظ سعید اور حریت رہنما ان رقوم کو جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے رہے جن میں سیکورٹی فورسز پر حملے، پُرتشدد مظاہرے، اسکولوں کو نذر آتش کرنا، اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔این آئی اے کے مطابق یہ تمام کارروائیاں خطے کو غیر مستحکم کرنے اور سیاسی مزاحمت کے نام پر ملی ٹینسی کو فروغ دینے کے مقصد سے کی گئیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے رُکن پارلیمان انجینئر رشید کی ضمانتی درخواست پر این آئی اے کو نوٹس جاری کیا
