عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کے روز قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر نے پہلی بار ملی ٹینسی کے خلاف بغاوت کی ہے، خاص طور پر پہلگام حملے کے بعد۔ خصوصی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر میں غم و غصے اور مذمت کا جواظہار ہوا، وہ خطے میں ملی ٹینسی کے خاتمے کی شروعات کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا،26برسوں میں پہلی بار میں نے جموں و کشمیر کے عوام کو یہ کہتے سنامیرے نام پر نہیں،وہ خود باہر نکلے، نہ کوئی سیاسی جماعت انہیں لے کر آئی، نہ کوئی حکومتی حکم تھا۔ انہوں نے موم بتیاں جلائیں، بینرز اٹھائے، اور خاموشی سے سڑکوں پر چل کر حملہ آوروں کو پیغام دیا کہ جس مقصد کے لیے تم نے یہ کیا، وہ ہمارا مقصد نہیں ہے۔
وزیر اعلیٰ نے حملے کی رات پولیس کنٹرول روم کا دورہ کرنے کا واقعہ بھی یاد کیا، جہاں 26 عام شہریوں کی لاشیں موجود تھیں۔ انہوں نے کہا کہ سوگوار خاندانوں کو تسلی دینے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ انہوں نے سوال کیا، ان خاندانوں کا کیا قصور تھا؟ صرف یہ کہ وہ پہلی بار سکون کی تلاش میں یہاں آئے تھے، اور بدلے میں اپنی جان کی قیمت چکائی۔
عمر عبداللہ نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر میں ہونے والے جانی نقصان کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ہم نے اسمبلی کمپلیکس پر اکتوبر 2001 میں ہونے والے حملے میں اپنے لوگ کھوئے۔ کیمپوں پر حملے ہوئے، پنڈت بستیوں، سکھ کالونیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم سمجھے تھے کہ یہ دن گزر چکے ہیں، مگر 22 اپریل کا حملہ ان بھیانک یادوں کو تازہ کر گیا۔
انہوں نے کہا کہ خونریزی کے باوجود امید کی کرن نظر آئی۔ پہلی بار کشمیری عوام نے نہ تو ملی ٹینسی کو جواز فراہم کیا، نہ خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے بلند آواز میں اور بغیر کسی جھجک کے مذمت کی۔ ملی ٹینسیبندوقوں یا سیکورٹی فورسز سے نہیں، بلکہ عوام کی حمایت سے ختم ہوگی۔ اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔
عمر عبداللہ نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں پیش آئے واقعے کو علامتی لمحہ قرار دیا۔ جمعہ کی نماز سے قبل، وہ مسجد، جو اکثر سیاسی خطبات کے لیے جانی جاتی ہے، خاموش ہو گئی۔ نمازیوں نے حملے کے متاثرین کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
ریاست کی حیثیت کی بحالی کے بڑھتے مطالبات کے حوالے سے عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ وہ اس سانحے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا،میں کس منہ سے دہلی جاکر ریاستی حیثیت کا مطالبہ کروں گا، 26 بے گناہ جانوں کی لاشوں پر سیاست کرکے؟ کیا میں اتنا گرا ہوا ہوں؟ ان جانوں کی اتنی کم قیمت ہے؟ خدا کی قسم، اگر میں ایسا سوچوں بھی تو مجھ پر لعنت۔انہوں نے یقین دلایا کہ مکمل ریاستی حیثیت کی جدوجہد جاری رہے گی، لیکن آج کا دن سیاسی مطالبات کے لیے نہیں بلکہ حملے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے۔
عمر عبداللہ نے حملے کے دن انسانی ہمدردی اور بہادری کی کئی کہانیاں بھی سنائیں۔ ایک نوجوان لڑکے نے گولیوں کی بوچھاڑ کے دوران ایک سیاحتی خاندان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور باپ سے کہا: ‘آپ کی بیوی اور بچے تک کوئی پہنچے، اس سے پہلے اسے مجھ سے گزرنا ہوگا۔ ڈل جھیل کے کشتی بانوں نے سیاحوں کو مفت پھل پیش کیے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں اور ہوٹل مالکان نے اپنے گھروں کے دروازے سیاحوں کے لیے کھول دیے اور کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ یہ ہے ہمارا کشمیر، ہماری مہمان نوازی، ہماری روح۔
وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا کہ حملے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کچھ کشمیریوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن کئی ریاستی حکومتوں اور پولیس محکموں نے بروقت کارروائی کر کے صورتحال کو سنبھالا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اہم شہروں میں خصوصی ہیلپ لائن نمبرز اور نوڈل آفیسر مقرر کیے تاکہ کشمیری فوری مدد حاصل کر سکیں۔
آخر میں عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پر افواہیں اور جھوٹ پھیلانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا، اپنی شرارتیں بند کرو۔ جب تم جھوٹ پھیلاتے ہو تو اصل متاثرین کی تکلیف بڑھاتے ہو۔ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
کشمیر میں ملی ٹینسی کے خاتمے کی شروعات، پہلگام حملے پر اسمبلی میں عمر عبداللہ کا خطاب
