عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/متحدہ مجلسِ عمل کے امیر اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے حکومت کی جانب سے مستند مورخین اور معروف اسکالروں کی تحریر کردہ کتب پر پابندی عائد کیے جانے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے آمرانہ طرزِ عمل قرار دیا ہے۔
سماجی رابطہ ویب سائٹ ایکس پر جاری ایک بیان میں میرواعظ نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف علمی آزادی پر قدغن ہیں بلکہ یہ کشمیری عوام کے اجتماعی شعور اور تاریخی یادداشت کو ختم کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ ان کے بقول، ایسی پابندیاں تاریخی حقائق کو نہ تو مٹا سکتی ہیں اور نہ ہی عوام کے ذہنوں سے سچ کو نکالا جا سکتا ہے۔
میرواعظ نے کہا کہ تحقیق و تنقید پر مبنی لٹریچر پر قدغن عائد کرنا فکری تنگ نظری، علمی دیوالیہ پن اور اس عدمِ اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جو ایسے آمرانہ فیصلوں کے پیچھے کارفرما ہے۔انہوں نے اس امر کو بھی انتہائی متضاد قرار دیا کہ ایک جانب حکومت کی سرپرستی میں وادی میں کتب میلے منعقد کیے جا رہے ہیں تاکہ مطالعے کو فروغ دیا جا سکے، اور دوسری جانب علمی و تحقیقی کتب کی فروخت پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔
میرواعظ نے کہا کہ علمی اور فکری آزادی کسی بھی مہذب سماج کی بنیاد ہوتی ہے اور اس کو سلب کرنا نہ صرف آئینی اقدار کی پامالی ہے بلکہ یہ نوجوان نسل کو علم سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے متعلقہ حلقوں سے مطالبہ کیا کہ اس طرح کی غیرجمہوری اور تنگ نظر پالیسیوں پر نظرِ ثانی کی جائے تاکہ کشمیر میں فکری مکالمے اور علمی ترقی کا راستہ بند نہ ہو۔
مستند تاریخی کتب پر پابندی آمرانہ طرز عمل کی عکاسی: میر واعظ
