عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/موسم خزاں کی آمد کے ساتھ ہی وادیٔ کشمیر ایک بار پھر قدرتی حسن کے سنہرے اور سرخ رنگوں میں ڈھل گئی ہے۔ چنار کے پتوں کی سرخ و زرد چادریں زمین پر بچھ کر وادی کو ایک دلکش تصویری منظر میں بدل دیتی ہیں۔ قدرت کی یہ شاہکار تخلیق نہ صرف مقامی باشندوں کے دلوں کو موہ لیتی ہے بلکہ دور دراز سے آنے والے سیاحوں کو بھی مسحور کر دیتی ہے۔سری نگر کے باغات، گلی کوچے اور جھیل کنارے راستے ان دنوں خزاں کے جادو میں ڈوبے ہوئے ہیں۔بوٹینکل گارڈن، کشمیر یونیورسٹی کا نسیم باغ، نشاط باغ، شالیمار باغ اور بولیوارڈ روڈ جیسے مقامات خزاں کے اس موسم میں مقامی و ملکی سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ پرکشش منزلیں بن چکے ہیں۔چنار کے پتوں کا گرنا وادی کے خزاں کے موسم کی ایک منفرد پہچان بن چکی ہے۔ جب سورج کی کرنیں ان پتوں کے درمیان سے چھن کر زمین پر پڑتی ہیں تو ہر درخت، ہر راستہ اور ہر باغ ایک سنہری روشنی میں نہا جاتا ہے۔
نوہٹہ کے رہائشی ایک شخص نے بتایا،یہ لمحہ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے جب چنار کے پتے آہستہ آہستہ گرتے ہیں، فضا میں ایک نرم سرسراہٹ سنائی دیتی ہے اور اردگرد کا منظر زرد اور سرخ رنگوں میں رنگ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے فطرت نے خود اپنے ہاتھوں سے وادی کو سجایا ہو۔یونیورسٹی آف کشمیر کا نسیم باغ، جہاں صدیوں پرانے چنار کے درخت انتہائی آن بان اور شان سے ایستادہ ہیں، خزاں میں سونے جیسے پتوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ باغ کے اردگرد کے راستے، خاص طور پر جھیل ڈل کے کنارے بولیوارڈ روڈ، سنہری چادروں میں لپٹے دکھائی دیتے ہیں۔ بادام واری اور دیگر باغات میں بھی یہی منظر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے۔
یہ موسم صرف ایک قدرتی تبدیلی نہیں بلکہ کشمیر کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ چنار، جو وادی کی پہچان سمجھا جاتا ہے، خزاں میں اپنے تمام رنگ بکھیر دیتا ہے۔ سیاح اور فوٹوگرافر اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے ان پتوں میں کھیلتے ہوئے تصاویر لیتے ہیں۔یونیورسٹی میں تصاویر کھنچواتے ایک طالب علم میران یوسف نے کہاہر سال ہم اس موسم کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ جب سورج کی روشنی چنار کے پتوں سے چھن کر زمین پر آتی ہے تو پورا منظر خواب جیسا لگتا ہے۔ خزاں کشمیر میں صرف ایک موسم نہیں، بلکہ ایک احساس ہے۔محمد آصف نامی ایک اور طالب علم نے کہاچنار ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ اختتام بھی خوبصورت ہو سکتا ہے۔ جب پتے گرتے ہیں، تو وہ زندگی کے بدلتے رنگوں کی یاد دلاتے ہی۔
یہ موسم نہ صرف وادی کی قدرتی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ سیاحتی سرگرمیوں کو بھی بڑھاتا ہے۔ کشمیر کے سیاحتی محکمے کے مطابق، اکتوبر کے آخر اور نومبر کے آغاز میں ہر سال وادی میں آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر سیاح اس دوران جھیل ڈل کی سیر، نسیم باغ اور نشاط باغ جیسے مقامات پر تصویریں کھینچنے اور فطرت کے قریب وقت گزارنے کے لیے آتے ہیں۔ادھر مقامی باشندوں کے مطابق، خزاں کا موسم وادی میں ایک طرح کی ’خاموش رومانیت‘ لے کر آتا ہے۔ لوگ شام کے وقت ڈل جھیل کے کنارے بیٹھ کر گرنے والے پتوں کو دیکھتے ہیں، جن کی سرسراہٹ ایک نرمی اور سکون کا احساس دلاتی ہے۔
خزاں کے اختتام کے ساتھ ہی جب نومبر آگے بڑھتا ہے، وادی آہستہ آہستہ سردیوں کے استقبال کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے۔ سرد ہوا کا پہلا جھونکا، پہاڑوں پر برف کی ہلکی تہہ اور پتوں سے خالی چنار درخت ایک نئے موسم کی آمد کی خبر دیتے ہیں۔ مگر خزاں کے یہ سنہری لمحے، چاہے کتنے ہی مختصر کیوں نہ ہوں، ہر دل میں ایک خوبصورت یاد چھوڑ جاتے ہیں۔موسم خزاں کشمیر کے لیے صرف ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ فطرت کا ایک تخلیقی جشن ہے، یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو بتاتا ہے کہ زندگی کے بدلتے رنگوں میں بھی حسن پوشیدہ ہوتا ہے۔
موسم خزاں: وادی کشمیر سنہرے لباس میں ملبوس، چنار کے گرتے پتے سیاحوں کے لیے دلکش منظر