کاشتکاروں اور متاثرین کا شکوہ: زندگی کا مقصد ختم ہوگیا، کھیت، گھر اور دہائیوں کی محنت لمحوں میں برباد ہوگئی،ابھی تک کوئی امداد نہیں کی گئی
ایم شفیع میر
کشتواڑ/ کشتواڑ ضلع کا دور افتادہ گاؤں چسوتی آج بھی ۱۴ اگست کو آئے تباہ کن سیلابی قہر کا منظر پیش کررہا ہےـ تفصیلات کے مطابق، معمول کی بارش نے دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کر دیا۔ پانی، مٹی اور چٹانوں کا ایک ہولناک ریلا گھروں اور کھیتوں کو بہا لے گیا، جس میں سو سے زائد افراد جاں بحق جبکہ درجنوں خاندان بے گھر ہوگئے۔ جو بچ گئے وہ اب ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں۔
سیلاب کی شدت اس قدر تھی کہ چسوتی کے ۳۸ کسان اپنی پوری زرعی زمین سے محروم ہوگئے۔ ان میں سے ۱۴ بدقسمت کسانوں کے مکانات بھی پانی کے تیز ریلے میں زمین بوس ہوگئے۔ آج یہ خاندان بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے زندگی کے کٹھن لمحات گزارنے کیلئے مجبور ہیں ـ نہ ہی سر چھپانے کو مکان ہیں اور نہ ہی کھیتی باڑی کے لئے زمین ـ ان کے لئے سیلاب کے بعد کی زندگی گویا ایک ایسی رات ہے جس کی کوئی صبح نہیں۔
اندازوں کے مطابق، چشوتی میں تقریباً ۴۵ کنال زمین مکمل طور پر بہہ گئی جبکہ واڑون میں ۳۵۰ کنال زمین مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
مکئی اور آلو جیسی فصلیں جنہیں کسانوں نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا، چند لمحوں میں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔ ڈی ڈی سی ممبر مڑواہ ظفراللہ شیخ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ واڑون میں ۳۵۰ کنال زمین سیلاب کی نذر ہوگئی ہے ۔
چشوتی کے کسانوں کا کہنا ہے کہ الفاظ ان کی مایوسی بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جمیل سنگھ، جس نے اپنا گھر اور کھیت دونوں کھو دیے، کہتا ہے جب زمین اور مکان دونوں تباہ ہو جائیں تو زندگی کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا۔ یہ اندھیرا کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔
اسی طرح ٹھاکر چند کا کہنا ہے میرے پاس نہ گھر ہے اور نہ کھیتی کے لئے زمین۔ یہی میری واحد روزی روٹی تھی، اور اب پہاڑوں سے آئے سیلاب نے زندگی کی ساری امیدیں بہا دی ہیں۔
متاثرہ کسان محفوظ علاقوں میں بازآبادکاری اور قابلِ کاشت زمین فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ دوبارہ باعزت زندگی گزار سکیں۔
انتظامیہ نے بھی بحران کی سنگینی کو تسلیم کیا ہے۔ڈپٹی کمشنر کشتواڑ، پنکج کمار نے صحافیوں کو بتایا کہ متاثرہ کسانوں کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا اور زرعی و ریونیو محکموں کی ٹیمیں سروے کر رہی ہیں۔ سروے رپورٹ آنے کے بعد امداد فراہم کی جائے گی۔”تاہم، متبادل زمین فراہم کرنے کا فیصلہ مرکزی حکومت کی ٹیم کرے گی جس کی جانچ ابھی جاری ہے۔
مگر کسانوں کے لئے فوری ریلیف اب بھی ایک دور کا خواب لگ رہا ہے۔ ۱۴ اگست کا طوفان نہ صرف ان کا سب کچھ بہا لے گیا بلکہ ان کے مستقبل پر سے یقین بھی چھین لیا۔
چسوتی کے ۳۸ متاثرہ کسانوں کی فہرست میں شامل ہر نام ایک دردناک کہانی سناتا ہے: ہوشیار سنگھ ولد کرشن لعل، وزیر چند ولد بھاگ سنگھ، رام لوکی ولد تاراچند، صورت سنگھ ولد تاراچند، گوکل چند ولد تاراچند، ہری سنگھ ولد ٹھاکر چند، دھیان سنگھ ولد ٹھاکر چند، جمیل سنگھ ولد ٹھاکر چند، ارجن سنگھ ولد ٹھاکر چند، ہری رام ولد جمیترام، سرندر کمار ولد مانی رام، دھری سنگھ ولد مانی رام، دیس راج ولد مانی رام، تھاوا دیوی زوجہ اوم پرکاش، روی کانت ولد بنسی لال، جسونت سنگھ ولد بنسی لال، منی رام ولد ہری لال، دیوا رام ولد ہری لال، کلدیپ سنگھ ولد دیوان سنگھ، چیت سنگھ ولد دیوان سنگھ، راجیش کمار ولد تترام، اوم پرکاش ولد ہنس راج، جسونت سنگھ ولد ہنس راج، سیوا رام ولد ہری لال، بھرت سنگھ ولد جیوتی رام، رادھا کرشن ولد جیوتی رام، ہری کرشن ولد سورم سنگھ، دیو راج ولد ناتھرا، تیرتھ لال ولد گھوپ رام، ہری چند ولد تاراچند، کنج لال ولد تاراچند، جگدیپ سنگھ ولد ناتھ رام، شیو کمار ولد منی رام، رندیپ سنگھ ولد ناتھ رام، سمیٹ سنگھ ولد بودھ راج، بلونت سنگھ ولد بودھ راج، مرلی ولد ہنس راج اور میلا رام ولد شام لال یہ سب کسان کبھی کھیتوں کے مالک اور گھروں کے وارث تھے۔ آج وہ خالی ہاتھ کھلے آسمان کے نیچے یا عارضی خیموں میں شب و روز گزار رہے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں ـ