عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر// جموں و کشمیر اسمبلی کے تیسرے دن اس وقت زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی جب ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چودھری نے آرٹیکل 370 کی بحالی کے حق میں قرارداد پیش کی، جسے ایوان میں اکثریتی ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔
اپوزیشن لیڈر سنیل شرما نے حکومت کی اس قرارداد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور سوال اٹھایا کہ جب ایوان میں لیفٹیننٹ گورنر کے خطاب پر بحث ہو رہی تھی، تو قرارداد کیسے پیش کی گئی۔
اجلاس کے آغاز پر ڈپٹی چیف منسٹر سرندر چودھری نے حکومت کی جانب سے قرارداد پیش کی، جس میں کہا گیا، “یہ ایوان ان خصوصی اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کا اعادہ کرتا ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کی شناخت، ثقافت اور حقوق کی حفاظت کرتی تھیں، اور یکطرفہ طور پر ان کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے”۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ “یہ ایوان حکومت ہند سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت شروع کرے تاکہ خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور ان شقوں کی بحالی کے آئینی طریقہ کار کو طے کیا جائے”۔قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ بحالی کے عمل میں جموں و کشمیر کے عوام کی جائز امنگوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
سینئر این سی رہنما اور وزیر صحت سکینہ ایتو نے قرارداد کی تائید کی۔ تاہم، بی جے پی رہنما اور اپوزیشن لیڈر سنیل شرما اور دیگر بی جے پی ارکان نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ آزاد ارکان اسمبلی شیخ خورشید اور شبیر کلّے، پی سی کے سربراہ سجاد لون اور تین پی ڈی پی ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔
سپیکر عبد الرحیم راتھر نے قرارداد کو ووٹ کے لیے پیش کیا، جو اکثریت سے منظور ہو گئی۔ بی جے پی کے احتجاج کے باعث اسپیکر کو ایوان کی کارروائی 15 منٹ کے لیے ملتوی کرنا پڑی۔
یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں—جموں و کشمیر اور لداخ—میں تقسیم کر دیا تھا۔
این سی نے اپنے منشور میں ریاستی درجہ اور خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔