عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ اور رکن اسمبلی تنویر صادق نے کہا کہ وقف املاک میں جاری اصلاحات مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں اور سوال اٹھایا کہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں اور املاک پر ایسے اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے، صادق نے کہا کہ یہ اصلاحات ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا آغاز مرحوم مفتی محمد سعید کے دور حکومت میں ہوا تھا، اور تب سے وقف املاک کو سرکاری کنٹرول میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ وقف بورڈ کو حکومت کے ماتحت کرنے کا عمل 2003 میں مفتی سعید کے دور میں شروع ہوا، جو مذہبی اداروں میں منظم مداخلت کی شروعات تھی۔
صادق نے کہا کہ روایتی طور پر مقامی لوگ وقف کے معاملات سنبھالتے تھے، لیکن اب سرکاری اہلکار مساجد، درگاہوں اور قبرستانوں کی ملکیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی مناسب دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وقف عوامی اعتماد کا معاملہ ہے، جو رضاکارانہ عطیات سے قائم ہوتا ہے، اور اسے ریاستی مداخلت سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ صرف مسلمان ہی اس کو چلا سکتے ہیں۔ حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ ان املاک کو چھینے جو کمیونٹی کی فلاح کے لیے دی گئی تھیں۔
صادق نے بتایا کہ ان کی جماعت نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں اٹھایا ہے اور انہیں ایک منصفانہ فیصلہ کی امید ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ہندو مندروں کی زمینوں پر اصلاحات کیوں نہیں کی جاتیں، جب کہ آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد مندروں کی زمین کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ انھوں نے ایک سیکولر ملک میں تمام مذاہب کے لیے یکساں قوانین ہونے چاہئیں۔
بی جے پی لیڈر سنیل شرما کی این سی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے، صادق نے اسے ’’غیر مؤثر‘‘قرار دیا۔ انہوں نے بی جے پی پر حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ناکامی کا الزام لگایا، خاص طور پر اسمبلی اجلاسوں میں جل شکتی اسکینڈل پر ان کے متضاد مؤقف کی مثال دیتے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی دس سالہ حکمرانی تباہی کا باعث بنی، اور جب پارٹی نے پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کیا تو بحران مزید گہرا ہوا۔انھوں نے کہا اصل نقصان 2003 میں ہوا اور پھر 2014 میں جب مفتی محمد سعید نے بی جے پی سے اتحاد کیا۔
صادق نے حالیہ اسمبلی میں وقف ترمیمی بل پر ہنگامہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ این سی نے اس بل کی مخالفت کی اور اسے امتیازی قرار دیا، جس کا ریکارڈ اسمبلی میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے پہلے ہی ان نتائج کے بارے میں خبردار کیا تھا، اور جامع مسجد کی بندش کو کشمیر میں ’’نام نہاد نارملسی‘‘کے دعوے کے خلاف قرار دیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر حالات نارمل ہیں تو جمعہ اور عید کی نمازوں کی اجازت کیوں نہیں ہے؟انھوں نے کہنا تھا کہ ہم اسی وجہ سے سپریم کورٹ گئے تاکہ مسلم املاک کو کمزور بنیادوں پر حکومت کے قبضے سے بچایا جا سکے۔
وقف ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کے خلاف بڑے منصوبے کا حصہ،اِس کا آغاز مفتی سعید کے دور حکومت میں ہوا تھا : تنویر صادق
