عظمیٰ ویب ڈیسک
سرینگر/اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) جموں نے سابق ڈائریکٹر قبائلی امور اور دیگر کے خلاف پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم کے نفاذ میں رہنما اصولوں کی سنگین خلاف ورزیوں اور غیر تسلیم شدہ اداروں کو غیر تسلیم شدہ کورسز کے لیے کروڑوں روپے جاری کرنے کے الزامات پر مقدمہ درج کیا ہے، جو صرف درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے امیدواروں کے لیے مخصوص تھی۔
اے سی بی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ایف آئی آر نمبر 09/2025 دفعہ 5(1)(c)، 5(1)(d) کے تحت پڑھا گیا دفعہ 5(2) جموں و کشمیر پبلک کرپشن ایکٹ، سموات 2006 اور دفعہ 120-بی آر پی سی کے تحت تھانہ اے سی بی جموں میں درج کی گئی۔
جن افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ان میں ایم ایس چوہدری (اس وقت ڈائریکٹر قبائلی امور جے اینڈ کے)، شہناز اختر ملک (کیٹالاگ کمپیوٹرز، اوقاف کمپلیکس جموں)، حمیرہ بانو اور فردوس احمد (چراغ انسٹی ٹیوٹ آف آئی ٹی، چنی ہمّت، جموں)، شام لال ترگوترا (جے کے ایس آئی ٹی آئی، جندر ملو، آر ایس پورہ)، جعفر حسین وانی (ایور گرین انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر ٹیکنالوجی، شاستری نگر جموں)، پرشوتھم بھاردواج (گلوبل انسٹی ٹیوٹ آف آئی ٹی، جانی پور جموں)، رمینک کور (پنکج میموریل چیریٹیبل ٹرسٹ فار ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، راجپورہ سباش نگر)، پونیت مہاجن (سوپر ٹیک انڈیا کمپیوٹر ایجوکیشن، تلاب تلو) اور دیگر شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ابتدائی تصدیق کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ حکومت ہند نے درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے طلباء کو تعلیم مکمل کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کی غرض سے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم شروع کی تھی، جس کے تحت فی طالب علم 18,000 روپے اور 2300 روپے ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جاتا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اسکیم کا مقصد ایس ٹی طلباء کو میٹرک کے بعد یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور تسلیم شدہ اداروں میں ادا کی گئی لازمی فیس کی واپسی ممکن بنائی جا سکے۔ جموں کے نجی اداروں نے دور دراز علاقوں کے ایس ٹی طلباء کے کاغذات حاصل کر کے قبائلی امور کے دفتر میں جمع کرائے، لیکن محکمہ قبائلی امور کے افسران نے اداروں کی حیثیت اور کورسز کی جانچ کیے بغیر ہی اسکالرشپ کی بڑی رقوم براہ راست ان اداروں کے بینک کھاتوں میں منتقل کر دیں۔
مزید کہا گیا کہ تصدیق سے یہ بھی پتا چلا کہ جن طلباء کے نام پر ادائیگیاں کی گئیں انہوں نے نہ تو داخلہ لیا اور نہ ہی کمپیوٹر کورس میں شرکت کی۔کچھ طلباء نے داخلہ لیا لیکن کبھی کلاسوں میں شریک نہیں ہوئے یا صرف جزوی طور پر شرکت کی۔ اس کے باوجود ان اداروں کے اکاؤنٹس میں مکمل فیس منتقل کی گئی۔ یہاں تک کہ ایک ادارے نے اپنی طلباء کی تعداد بڑھانے کے لیے دور دراز علاقوں کے ایس ٹی طلباء کے دستاویزات حاصل کر کے ان کے نام پر اسکالرشپ فارم بھرے۔
مزید انکشاف ہوا کہ بعض طلباء کے نام پر بغیر ان کی رضا مندی کے جعلی بینک اکاؤنٹس کھولے گئے تاکہ اسکالرشپ کی رقوم ان میں جمع کی جا سکیں، جب کہ فارم میں طالب علم کا اکاؤنٹ نمبر دینا لازمی تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہاں تک کہ کچھ ادارے نائیلیٹ (NIELIT) سے باقاعدہ طور پر تسلیم شدہ نہیں تھے، پھر بھی ان کو فیس کی ادائیگی کی گئی۔ قبائلی امور کے افسران نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اور مختلف اداروں کے مالکان سے ملی بھگت کر کے، ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ اور اسکیم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، 2014 سے 2018 کے درمیان کروڑوں روپے کی سرکاری رقوم ہتھیا لیں، جس سے سرکاری خزانے کو بڑا نقصان پہنچا۔ مزید تحقیقات جاری ہیں۔
اینٹی کرپشن بیورو جموں نے سابق ڈائریکٹر قبائلی امور و دیگر ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا
