عوامی حلقوں کے مطابق وادی ٔکشمیر میںقائم جتنے بھی سرکاری ہسپتال ،ڈسپنسریاں اور چھوٹے چھوٹے طبی مراکز ہیں ،اُن میں سے کئی ہسپتال بد نظمی کے شکار ہیںاور ڈسپنسریاںاور چھوٹےطبی مراکز محض نام کے رہ گئے ہیں۔ نہ وہاں علاج کی ضروری سہولتیں میسر ہیں ۱ور نہ ہی مناسب اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات۔ اور جو ڈاکٹر اور طبی عملہ موجود ہے، اُن میں سے زیادہ تر تعدا د ایسے افراد کی ہے،جن میں اہلیت اور خدمت ِ خلق مفقود ہے۔اکثر نوجوان ڈاکٹر اپنی تر قی کے مسائل میںاُلجھے ہوئے ہیں اور بڑےڈاکٹروں کے رویے کے خلاف بدظن دکھائی دیتے ہیں جبکہ بعض سنیئر ڈاکٹر وں میں بھی ہمدردی، شفقت اورمروت کا فقدان ہے ۔
میڈیکل عملوں کی اس ساری کشمکش میں بے چارے عام مریض بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔ اِن سرکاری طبی اداروں میں موجود ڈاکٹروں کی عدم توجہی ، نااہلی اور غیر ذمہ داری کے باعث مریض بہتر علا ج و معالجہ سے محروم ہورہے ہیں اور اُنہیںضروری ادویات بھی نہیں ملتی ہیں،نتیجتاً اُن مریضوں کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہےاور انہیں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جا تا ہے ۔ اکثر ہسپتالوں میں بیماروں کے بھاری رَش کے کارن،قطار در قطار ،لمبی لمبی لائنوںمیں کھڑےمریضوں کو جب طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر سےچیک اَپ کرنے کا موقع ملتا ہےتو سرسری جانچ میں بعد اُن کے ہاتھ میں جو نسخہ تھما دیا جاتا ہے،اُس پر دوائیوں کی وہ لمبی لسٹ درج ہوتی ہے،جو اُنہیں بازار سے لانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایسے میں مالی بحران کا شکار غریب مریض جو سرکاری اسپتالوں میں علاج و معالجے کے لئے آتے ہیں،وہ دوائیاں کہاں سے لائیں؟ ظاہر ہے کہ پرائیوٹ اور نجی اسپتالوں میں ایسے مریض علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں اور مجبوراً سرکاری ہسپتالوں کا ہی رُخ کرلیتے ہیں ۔
مگر یہاں تو ادویات ناپید ، ڈاکٹر ندارد اور محض دوائیوںکی لمبی لسٹ ہی ملتی ہے۔ایک طرف جہاں ان ہسپتالوں میں پر چی یعنی ٹکٹ حاصل کرنےکے لئے گھنٹوں تک قطار میں کھڑا ہو نا ایک عذاب ہےتو دوسری طرف جان لیوا امراض کے لئے اگر آپریشن کر نا ضروری ہوتاہے تو آپریشن کے لئے بے چارے مریض کو چارچار یا چھ چھ مہینہ کاٹائم دے کر ٹرخایا جا تا ہے ۔ مجبوراً بہت سے مریض کے لواحقین اپنا سب کچھ بیچ کر پرائیوٹ اسپتالوں کا رُخ کرنے پر مجبور ہوجا تے ہیں ۔ دیکھنے میں یہی آرہا ہےکہ لوگ اپنے عزیزمریضوںکی صحت یابی کی اُمید پردُور دراز علاقوں سےطویل مسافت طے کرکے ان ہسپتالوں میں آتے ہیں مگر زیادہ تر مریضوں کا اِن ہسپتالوں میں کوئی پرُسان حال نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ایمر جنسی کا بُرا حال ہے ، ایمر جنسی میں لائے گئے مریضوں کے لئے بیڈ میسر نہیں ہو تا ۔ جبکہ بعض بیماروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے وہیل چیئر تک نہیں مل جاتی ہے۔لہٰذا ہمارے حکمران اوریہاں کی انتظامیہ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ سرکاری طبی اداروں کی خبر لیںاور ان اداروں میں مفت علاج، ادویات کی فراہمی اور بہتر نگہداشت کا مثبت بندوبست کروائیں ۔سرمایہ دار طبقے علاج و معالجہ کے لئے بیرون ِ ریاست یا بیرونِ ملک کا ہی رُخ کرنا پسند کرلیتےہیںاور مہنگے ترین ہسپتالوں میں نامور ڈاکٹروں سے علاج کرواتے ہیں لیکن عام لوگ ،خصوصاًغریب طبقےؑعلاج و معالجہ کے لئےسرکاری ہسپتالوں کا ہی رُخ کرلیتے ہیں۔بہرحال حکومتی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ وقفہ وقفہ کے بعدسرکاری طبی اداروںکے نظم و نسق کا جائزہ لیا کریںور ان میں مریضوں کو ملنے والی تمام تر سہو لیات کا جائزہ لیں ،جو کہ ان کے لئے مخصوص ہوتی ہیں ،ساتھ ہی اِن طبی اداروں میں کام کرنے والے ایسے ملازموں کی بھی خبر لیںجوبد دیانتی، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے نہ صرف غریب مریضوں کے لئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں بلکہ ان طبی اداروں کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں ۔ اگر حکومت اوراس کی مشینری صدق دلی سے ایسا کر ے توتمام سرکاری ہسپتال،ڈسپنسریاں اور چھوٹے طبی مراکز کے مسائل مستقل بنیاد پر حل ہو سکتے ہیں اور مفلسی و غربت سے ستائی ہو ئی عوام کو علاج و معالجے کی بہترین سہولیات میسر ہو سکتے ہیں ۔ہم حکومتِ وقت سےیہی کہیں گے کہ وہ دن بہ دن آبادی میں اضافے کے پیش نظر نئے ہسپتال اور طبی مراکز کا قیام عمل میں لائیں،تاہم جو سرکاری طبی مراکز اس وقت موجود ہیں ، اُن کی طرف بھی خصوصی توجہ دیں تاکہ مریضوں کو فی الحقیقت ، بر وقت اور صحیح علاج کی سہولت فراہم ہو سکیں ۔