ساحل جہانگیر میر
زمین انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ انسان نے تاریخ کے ہر دور میں زمین ہی کے سہارے تہذیبیں بنائیں، زراعت کی، بستیاں آباد کیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی۔ مگر افسوس کہ آج اکیسویں صدی کا انسان اسی زمین کو سب سے زیادہ پامال کر رہا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں اور اس سے بڑھ کر کشمیر جیسے حساس خطے میں زمین کی بے دریغ تقسیم، خرید و فروخت، پلاٹنگ، شادی ہالز، فلیٹس، بڑے بڑے مکانات اور بے تحاشا تعمیرات نے قدرتی حسن، زرعی وسائل اور ماحولیات کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنی کمائی کا بہترین حصہ گھر بنانے میں صرف تو کر رہے ہیں مگر کاروبار، صنعت، روزگار یا مستقبل کی سرمایہ کاری میں نہیں لگا رہےہیں۔ نتیجہ یہ کہ گھر تو کھڑے ہو رہے ہیں لیکن معیشت بیٹھ رہی ہے، زمین کم ہو رہی ہے لیکن بیکار نوجوان بڑھ رہے ہیں۔ مکانات سجے ہوئے ہیں مگر خالی جیبیں اور بے روزگار ذہن مستقبل کی تاریکی کی علامت بن چکے ہیں۔
گھروں کی اندھی دوڑ: ۔بھارت میں، خاص طور پر شہری علاقوں میں، گھر کو اسٹیٹس کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ لاکھوں اور کروڑوں روپے صرف اس لیے خرچ کر دیتے ہیں کہ ان کا گھر باقیوں سے بڑا اور بہتر نظر آئے۔ کشمیر میں یہ رجحان اور بھی شدید ہے۔ شادی بیاہ، مہمان داری، عزتِ نفس اور ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ جیسی سوچیں ایک عام خاندان کو بھی بڑے اور مہنگے گھر کی دوڑ میں دھکیل دیتی ہیں۔پہلے ایک سادہ سا گھر بھی خاندان کی ضروریات پوری کر لیتا تھا۔ مگر آج بڑے ڈرائنگ روم، لمبے لان، بے حد آرائشی کمروں اور فیشن زدہ ڈیزائنز کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔
شادی ہالز، تقریب گاہیں اور زمین کا بے تحاشا استعمال :۔کشمیر میں شادیوں اور تقریبات کا انداز بدل چکا ہے۔ چھوٹے گھروں میں سادگی سے ہونے والی شادیاں اب بڑے بڑے میرج ہالز اور فارم ہاؤسز میں بدل گئی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہزاروں کنال زرعی زمین تقریب گاہوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔جہاں کبھی کھیت لہلہاتے تھے، وہاں اب گاڑیاں کھڑی ہیں، جنریٹر چل رہے ہیں، ٹینٹ لگ رہے ہیں اور تعمیرات ہورہی ہیں۔ یہ صرف ماحولیات کو متاثر نہیں کرتا بلکہ غذا کی پیداوار کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔جس خطے کا زیادہ انحصار درآمد شدہ اشیائے خورونوش پر ہو جائے، وہ علاقہ معاشی طور پر کمزور اور بیرونی عوامل پر منحصر ہو جاتا ہے۔ کشمیر اس راستے پر تیزی سے چل رہا ہے۔
زمین کا نقصان اور ماحولیات پر تباہ کن اثرات : ۔زمین کم ہونے کا سیدھا اثر ماحول پر پڑتا ہے۔ کشمیر کے حالات پہلے ہی نازک ہیں۔ بے تحاشا تعمیرات نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔پانی کے چشموں کا خشک ہونا ،سیلاب کا خطرہ بڑھ جانا ،زمینی درجہ حرارت میں اضافہ ،جنگلی حیات کا خاتمہ ،زرخیز زمین کا کنکریٹ میں تبدیل ہو جانا،جب زمین بارش کو جذب نہیں کر پاتی تو وہی پانی ندیوں میں تیزی سے بہہ کر سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ 2014 کا تباہ کن سیلاب اسی بے تحاشا تعمیرات کا نتیجہ تھا، مگر افسوس کہ ہم نے آج تک کوئی سبق نہ سیکھا۔
زمین کا نقصان اور معاشی بوجھ : ۔جب ایک خاندان اپنی تمام عمر کی کمائی زمین خریدنے اور گھر بنانے میں لگا دیتا ہے تو کاروبار کا وہ سرمایہ ختم ہو جاتا ہے جو روزگار پیدا کر سکتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ نوجوان بے روزگار رہ جاتے ہیں، گھروں میں ڈگریاں ہوتی ہیں مگر نوکری نہیں۔ایک بڑا گھر صرف رہنے کے لئےہوتا ہے، وہ آمدنی پیدا نہیں کرتا۔ مگر ایک کاروبار یا سرمایہ کاری خاندان کو آنے والی نسلوں تک سہارا دے سکتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پہلے روزگار بناؤ، پھر گھر بنا لو۔مگر ہمارے یہاں اس کے برعکس ہو رہا ہے،پہلے گھر بنا رہے ہیں، پھر روزگار جو ملتا نہیں۔
کشمیر کی شناخت اس کی وادیاں، باغات، دھان کے کھیت، سر سبز چراگاہیں اور خوبصورت منظروں سے تھی۔ مگر آج ہر طرف پلاٹنگ ، کالونیاں ، بڑے تعمیراتی کمپلیکس تیزی سے پھیل رہے ہیں۔یہ صرف زمین نہیں کھا رہے، بلکہ کشمیر کی شناخت، اس کا حسن اور اس کا ماحول بھی کھو رہا ہے۔
گھر کا جنون اور خاندانوں کی مالی بدحالی :۔اکثر خاندان اپنی پوری زندگی کی کمائی گھر بنانے میں لگا دیتے ہیں۔ کئی لوگ بیرونِ ملک یا دوسرے شہروں میں نوکریاں کرتے ہیں، مگر کمائی کا بڑا حصہ اپنے گاؤں یا علاقے میں بڑا گھر بنانے پر خرچ کر دیتے ہیں۔لیکن وہ گھر سال میں صرف کچھ مہینے استعمال ہوتا ہے۔ باقی وقت خالی رہتا ہے۔اس کے برعکس اگر یہی پیسہ سرمایہ کاری یا کاروبار میں لگایا جاتا تو خاندان مالی طور پر مضبوط ہوتا ، بچوں کو بہتر تعلیم ملتی ، نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا ہوتا۔مگر افسوس کہ ہم صرف گھروں پر پیسہ لگا رہے ہیں اور مستقبل کو خالی چھوڑ رہے ہیں۔
نئی نسل کا سب سے بڑا نقصان،زمین نہیں، مواقع کا خاتمہ :۔جب زمین کم ہو جاتی ہے اور گھر بڑھ جاتے ہیں تو روزگار کے مواقع کم ہونے لگتے ہیں۔ایک نوجوان جس کے پاس تعلیم ہے مگر نوکری نہیں، وہ بے بسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔نئی نسل کو جن مشکلات کا سامنا ہوگا، وہ شاید اس نسل نے کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ روزگار کی کمی ، زمین نہ ملنے کی وجہ سے مہنگے مکانات ،ماحولیات کی تباہی ، بڑھتی ہوئی مہنگائی ، صحت کے مسائل ، غذائی قلت ، صاف پانی کی کمی۔یعنی آج ہم جس طرح زمین برباد کر رہے ہیں، اس کا بوجھ ہماری آنے والی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا۔
بھارت کی صورتحال :۔دہلی، ممبئی، بنگلورو، حیدرآباد، پونے، چندی گڑھ سب جگہ ایک ہی کہانی ہے۔گھروں اور فلیٹس کی بے تحاشا تعمیر، زرعی زمین کا خاتمہ اور ماحولیات کا تیزی سے بگاڑ۔
بھارت میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں مگر گھروں کی دوڑ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔جو گھر پہلے کھیتی کی زمین پر بنتے تھے، وہ اب بلند و بالاکمپلیکس، مالز اور شادی ہالز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں، یہ پورے بھارت کا بڑھتا ہوا بحران ہے۔لوگ سوچتے ہیں کہ زمین خرید کر مستقبل محفوظ ہو جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ زمین خریدنے اور تعمیر کرنے کی دوڑ ہی مستقبل کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔کیا ہمیں گھر بنانا چھوڑ دینا چاہیے ہرگز نہیں مگر سمجھداری سے۔گھر بنانا غلط نہیں، مگر ترجیحات غلط ہیں۔ضرورت کے مطابق گھر،مضبوط مگر سادگی سے تعمیر،زیادہ زمین نہ گھیرنا،گھر کی جگہ کاروبار یا سرمایہ کاری کو ترجیح دینا،زرعی زمین کو بچانا،ماحولیات کا خیال رکھنا،شادی ہالز کو محدود کرنا،یہ اقدامات ہمارے لیے مستقبل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
حل کیا ہے؟ :۔حکومت کو زرعی زمین پر تعمیرات روکنے کے لیے سخت پالیسی بنانی ہوگی۔عوام کو شعور دینا ہوگا کہ بڑا گھر عزت نہیں، مگر مضبوط معیشت مستقبل کی ضمانت ہے۔شادیوں اور تقاریب کو سادگی کی طرف واپس لایا جائے۔وادی میں گرین زونز کو محفوظ کیا جائے۔اگر ہم نے زمین کو اسی طرح کھویا تو مستقبل میں ہماری نسلیں نہ گھر بنا پائیں گی، نہ کاروبار کر پائیں گی، نہ زراعت بچ جائے گی، نہ ماحول۔آج کے گھروں کا جنون کل کی نسلوں کے لیے بوجھ بن سکتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھداری، ذمہ داری اور شعور سے فیصلہ کریں۔ کیونکہ زمین ایک بار ختم ہو جائے تو واپس نہیں آتی۔
(رابطہ۔9086707465 )
[email protected]