عظمیٰ ویب ڈیسک
جموں/جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کے روز شری ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں مذہب کی بنیاد پر داخلوں کے حوالے سے پیدا کی گئی بحث کو غیر آئینی اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی نے جب اس یونیورسٹی کے قیام کا بل پاس کیا تھا، اس میں کہیں بھی مذہب کی بنیاد پر داخلوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت متفقہ طور پر کہا گیا تھا کہ داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے اور ادارے کا کردار خالصتاً تعلیمی ہوگا نہ کہ مذہبی تفریق پر مبنی۔جموں میں نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران وزیر اعلیٰ نے کہا، ’اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ میرٹ کی بنیاد پر ایڈمیشن ملے گا۔ آج جب میرٹ کے مطابق داخلے ہو رہے ہیں تو چند لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا۔ اگر میرٹ کے بغیر داخلے دینے ہیں تو اس کے لیے سپریم کورٹ سے اجازت لینی پڑے گی کیوں کہ موجودہ قوانین اس کی اجازت نہیں دیتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک کے آئین میں سیکولر ازم کی صریح گنجائش موجود ہے اور کسی بھی یونیورسٹی یا سرکاری ادارے میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز نہ تو آئینی طور پر درست ہے اور نہ ہی سماجی طور پر قابلِ قبول ہے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سوالیہ انداز میں کہا، ’اگر ہم آج مذہب کی بنیاد پر داخلے کریں گے تو کیا کل کو راشن بھی مذہب دیکھ کر دیا جائے؟ کیا پولیس کارروائیاں مذہبی شناخت کے مطابق ہوں گی؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘انہوں نے قائدِ حزبِ اختلاف سنیل شرما کے بیانات پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شرما کو اسمبلی ریکارڈ نکال کر دیکھنا چاہئے کیوں کہ بل میں صاف طور پر درج ہے کہ داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے، نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق جو لوگ یہ اعتراضات اٹھا رہے ہیں انہیں قانون پڑھنا چاہیے، نہ کہ اپنے سیاسی بیانات سے نوجوانوں کو غیر ضروری تنازع میں دھکیلنا چاہیے۔
وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ جن طلبہ نے میرٹ کی بنیاد پر داخلہ حاصل کیا ہے، ان کا اس تنازع سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں بلاوجہ نشانہ بنانا بدترین ناانصافی ہے۔ایل جی منوج سنہا سے سنیل شرما کی مجوزہ ملاقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ اس معاملے میں لیفٹننٹ گورنر بی جے پی کو مطمئن نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ مسئلہ قانون ساز اسمبلی کے منظور شدہ ایکٹ سے متعلق ہے اور قانون صرف قانون کے مطابق ہی بدلا جا سکتا ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا، ’اگر کچھ لوگوں کی مرضی ہے کہ یونیورسٹی اور اسپتال صرف ہندوؤں کے لیے ہوں، تو وہ صاف صاف کہہ دیں کہ غیر ہندوؤں کا علاج یہاں نہیں ہوگا۔ مگر ایسا قانون کے دائرے میں ممکن ہی نہیں، کیونکہ زمین کی الاٹمنٹ کے معاہدے میں صاف درج ہے کہ سیٹوں کی تقسیم مذہب دیکھ کر نہیں ہوگی۔‘وزیراعلیٰ نے آخر میں کہا کہ ایسی بیان بازی نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ جموں و کشمیر کی مشترکہ ثقافت، بھائی چارے اور سیکولر اقدار کی بھی توہین ہے، اور حکومت اس طرح کے ہر نظریے کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی میں داخلے کا معیار صرف میرٹ ہے، مذہب نہیں: وزیر اعلیٰ کی وضاحت