ماحولیات اور جنگلات سے متعلق منظوریوں کا عمل پیچیدہ اور طویل ،کام جاری:این ایچ پی سی حکام
محمد تسکین
بانہال// رام بن، ریاسی اور ادہم پور اضلاع میں پھیلا ہوا مجوزہ ساولکوٹ پن بجلی پروجیکٹ مسلسل انتظامی رکاوٹوں اور سرکاری تاخیر کا شکار ہے۔ حالیہ پیش رفت میں این ایچ پی سی کی جانب سے جولائی 2025میں کنسلٹنسی کیلئے جاری کردہ ٹینڈر کو اس کے اعلان کے فوری بعد منسوخ کئے جانے سے ساولکوٹ پن بجلی پروجیکٹ میں مزید تعطل پیدا ہو گیا ہے۔باخبر ذرائع کے مطابق پروجیکٹ کے آغاز سے قبل زمین کے حصول، فنڈس کی فراہمی اور مختلف محکموں سے منظوریوں کا عمل اگرچہ مرحلہ وار طریقے سے جاری ہے، تاہم NHPC حکام مختلف سرکاری محکموں کی کلیئرنس میں تاخیر اور موجودہ یوٹی حکومت کی مبینہ سرد مہری کو بھی اس پروجیکٹ پر اثر انداز ہونے کی دبے الفاظ میں شکایت کرتے ہیں۔ساولکوٹ پن بجلی پروجیکٹ کی ممکنہ لاگت 31ہزار 380کروڑ روپےبتائی جاتی ہے ۔ دریائے چناب پر تعمیر ہونے والایہ چوتھا بجلی پروجیکٹ ہوگا اور دو مرحلوں میں تیار ہونے والے ساولکوٹ پروجیکٹ میں 1856میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ جموں و کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے انجینئروں کا کہناہےکہ ڈرائنگ کے مطابق ساولکوٹ پن بجلی پروجیکٹ کا ڈیم ضلع رام بن میں دریائے چناب پر تعمیر ہوگا، پانی کے رخ کو موڑنے کے لیے ڈائیورشن ٹنل ضلع ریاسی میں جبکہ زیر زمین پاور ہاؤس ضلع ادہم پور میں قائم کیا جائے گا۔ تکمیل کے بعد یہ جموں و کشمیر کا سب سے بڑا اور ملک کا تیسرا بڑا پن بجلی پروجیکٹ ہوگا۔یہ منصوبہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے مختلف مراحل میں زیر غور رہا ہے۔ پچھلے سات تا آٹھ برسوں کے دوران جے کے پی ڈی سی کی جانب سے پروجیکٹ تک رسائی کیلئے ٹنگر گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر طویل سرنگ اور دریائے چناب پر ایک پل سمیت دیگر بنیادی ڈھانچے کے کام مکمل کئے جاچکے ہیں تاہم بعد میں جے کے پی ڈی سی کو منصوبے سے الگ کرکے 2021میں اس کی تعمیر کی ذمہ داری این ایچ پی سی کے سپرد کر دی گئی۔جنوری 2021میں جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری انتظامیہ کی طرف سے جے کے پی ڈی سی نے NHPC کے ساتھ ایک چالیس سالہ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے اور اس معاہدے کے تحت این ایچ پی سی اس پروجیکٹ کو تعمیر کرے گی، چلائے گی اور مقررہ مدت کے بعد جے کے پی ڈی سی کو واپس کرے گی۔اس معاہدے کے بعد سے اب تک زمینی اور عملی سطح پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی تاہم جنگلاتی اور ماحولیاتی منظوریوں کے ابتدائی مراحل طے ہو چکے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے کی منظوری اور سینکڑوں ہیکٹر اراضی کے حصول کا عمل تاحال زیر التواء ہے اور اس کیلئے کاغذی اور دیگر ضروری کاروائی کا عمل جاری ہے۔ اپریل میں پہلگام سانحہ کے بعد جب مرکزی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا تو توقع کی جا رہی تھی کہ ساولکوٹ پروجیکٹ کے کام میں تیزی آئے گی۔ جولائی میں این ایچ پی سی کی جانب سے عالمی سطح کی کنسلٹنسی کمپنیوں سے پلاننگ، ڈیزائن اور انجینئرنگ کیلئے ٹینڈر طلب کیا جانا اسی سمت ایک مثبت قدم سمجھا گیا تھا ، لیکن اگست میں اسے انتظامی وجوہات کی بنیاد پر منسوخ کیے جانے سے یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔ این ایچ پی سی نے یہ ٹینڈر 11اگست 2025کو باقاعدہ طور پر منسوخ کر دیا تھا۔جولائی میں ٹینڈر کے اعلان کے بعد جموں و کشمیر کے عام لوگ بالخصوص بیروزگار نوجوانوں میں روزگار کے نئے مواقع کی امید جاگ گئی تھیں ، تاہم ٹینڈر منسوخی کے اس اچانک فیصلے نے لوگوں کو ایک بار پھر مایوسی اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردیا۔ضلع رام بن کے مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساولکوٹ پروجیکٹ کی منظوری کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن سرکار اور این ایچ پی سی کی سنجیدگی زمینی سطح پر نظر نہیں آ رہی۔ انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ سے ایک درجن سے زائد آبادیاں اور جنگلاتی علاقے زیر آب آئیں گے جبکہ 1500سے زائد خاندان متاثر ہوں گے، اس لیے تاخیر کی وجوہات دور کرکے اسے جلد از جلد شروع کیا جائے تاکہ متاثرین کو بہتر متبادل اور نوجوانوں کو روزگار فراہم ہوسکے۔اس سلسلے میں بات کرنے پر این ایچ پی سی میں ماحولیات کے سینئرمنیجر ویرا پرساد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ فی الحال ساولکوٹ پروجیکٹ کی جگہ پر تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا کیونکہ چند اہم منظوریاں ابھی باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیات اور جنگلات سے متعلق منظوریوں کا عمل پیچیدہ اور طویل ہے اور اس پر مرحلہ وار کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ حکومت ہند کے پبلک انویسمنٹ بورڈ اور اس کے بعد کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کی حتمی منظوری کے بعد ہی پروجیکٹ کیلئے بجٹ کی منظوری دی جائے گی اور توقع ہے کہ تمام ضروری مراحل مکمل ہونے کے بعد کنسلٹنسی کیلئے ایک مرتبہ پھر ٹینڈر جاری کیے جائیں گے۔ ویرا پرساد کے مطابق این ایچ پی سی نے ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کیلئے ایک جامع منصوبہ بھی تیار کیا ہے جس میں جنگلات کی بحالی، کیچمنٹ ایریا ٹریٹمنٹ، ڈیم سیفٹی، جنگلی حیات کے تحفظ اور مسلسل ماحولیاتی نگرانی جیسے اقدامات شامل ہیں۔