رپورتاژ
سبزار احمد بٹ
بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے سلسلے میں حیدرآباد یونیورسٹی میں 11سے 13نومبر 2025تک “اردو اور دیگر زبانوں میں ادبِ اطفال” کے عنوان سے سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوا۔ یہ سیمینار آل انڈیا ادبِ اطفال سوسائٹی، نئی دہلی نے حیدرآباد یونیورسٹی کے اشتراک سے ترتیب دیا تھا، جس کی سرپرستی ادبِ اطفال کے چیئرمین سراج عظیم نے کی۔اس سمینار کا مقصد جہاں دنیا کی قلمکاروں کی توجہ ادب اطفال کی طرف مبذول کرانا تھاوہیں ادب اطفال کو نئے تقاضوں سے ہمکنار کرنا تھا ۔ اس سیمینار میں ملک کے مختلف خطّوں کے نامور قلمکاروں کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی ممالک سے آئے ہوئے ادبا، شعرا اور ادب دوست حضرات نے شرکت کی اور ادب اطفال کی ضرورت اور ا دب ِ اطفال میں مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی سفارش کی ۔
افتتاحی اجلاس:۔سمینار کے پہلے دن کے اجلاس کی نظامت ملک کے نامور ناظم ڈاکٹر شفیح ایوب نے بہترین انداز میں کی ۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر رحمت یوسف زئی نے کی، جبکہ کلیدی خطبہ حیدرآباد یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر دویش نگم نے پیش کیا۔ڈاکٹر نگم نے کہا کہ’’آج کے دور میں بچوں تک ادب پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے۔ جن ذرائع میں بچوں کی دلچسپی ہو، انہی راستوں سے ادب کو ان تک پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے‘‘۔افتتاحی اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل خلیل الرحمٰن، عاصف عاظمی، پروفیسر فضل و مکرم، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، لندن سے آئے ہوئے شاعر فہیم اختر، ممبئی کی پروفیسر فرزانہ، قطر سے آئے ہوئے مظفر نایاب، پروفیسر عرشیاں جبیں، پروفیسر ارشد علی صاحبہ، صنوبر قریشی اور پروفیسر ستار ساحر شامل تھے۔اس اجلاس میں فہیم اختر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ سیمینار کی تمام کارروائی اور اہم نکات پر مشتمل ایک جامع دستاویز تیار کی جانی چاہیے تاکہ یہ مواد محققین، اساتذہ اور طلبہ کے لیے مستند حوالہ بن سکے۔پہلے دن کے تکنیکی اجلاس کی صدارت پروفیسر نعیمہ پاشا نے کی۔ اس اجلاس میں متعدد وقیع مقالے پیش کیے گئے جن میں عرفان علی کا مقالہ’’ ادبِ اطفال میں حوادث اور صدمات‘‘،عبدالحی (بہار کا مقالہ مصنوعی ذہانت اور ادبِ اطفال)اورپروفیسر رفیع الدین ناصر (اورنگ آباد) کا مقالہ’’ ادبِ اطفال میں ماحولیاتی عناصر‘‘شامل تھے۔ڈاکٹر کاشف (حیدرآباد یونیورسٹی) کا مقالہ جمیل جالبی بحیثیت بچوں کے ادیب کے علاوہ انام الدین امام، ندیم سلطانہ اور نکہت انجم نے بھی شاندار مقالے پیش کئے۔
دوسرا دن:۔سمینار کے دوسرے دن کے اجلاس کی صدارت کینیڈا سے آئے ہوئے معروف ادیب، قلمکار اور اقبال شناس ڈاکٹر تقی عابدی نے کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا’’اردو ایک عظیم عمارت ہے جسے ہم اوپر سے سنوارنے میں لگے ہیں، مگر جب تک بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی، عمارت پائیدار نہیں ہو سکتی۔ ان بنیادوں کو مضبوط کرنے کا واحد راستہ ادبِ اطفال پر سنجیدہ کام ہے‘‘۔ تقی عابدی نے کہا کہ غالب اور اقبال جیسے عظیم شعرا نے بھی بچوں پر نظمیں تخلیق کی ہیں، اس لیے بچوں کے ادب کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس موقع پر عاصف عاظمی نے ہر سال ادبِ اطفال کے ممتاز قلمکاروں کو گیارہ ہزار روپے کے انعامات دینے کا اعلان کیا۔سیمینار میں کئی کتابوں کا رسمِ اجرا بھی عمل میں آیا جن میں ’’سوغاتِ آثم کرنولی‘‘ ایک اہم اور ضخیم مجموعہ ہے، جسے محمد اقبال رشد نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔
تیسرا دن:۔تیسرے دن بھی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات پیش کیے۔جارکھنڈ سے آئے نوجوان محققین مجیب الرحمٰن اور شاہد کلیم نے اپنے تحقیقی مقالات سے سامعین کو متاثر کیا۔دوسرے سیشن میں ادبا، اساتذہ اور طلبہ نے سیمینار کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے۔اس سیمینار میں شامل تمام مہمانان کرام کو آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی دہلی کی جانب سے ایک شال اور مومنٹو پیش کیا گیا ۔آخر میں پروفیسر عرشیاں جبیں نے اظہارِ تشکر پیش کیا۔
حاصل کلام:۔اگر چہ بہت شاندار سمینار رہا تاہم کچھ ایک کمیاں شدت سے محسوس کی گئیں۔ سمینار میں بچوں کا سیشن بھی ہونا چاہیے تھا جہاں بچے کہانیوں اور نظموں سے محظوظ ہوجاتے اور ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کی مدد سے اس سیشن کو باقی دنیا تک پہنچایا جاتا ۔ دوسری بات یہ کہ سمینار میں مقالوں کی بھرمار تھی جس کی وجہ سے ہر ایک مقالے پر بات کرنا ممکن نہیں ہوا، وقت کی کمی کی وجہ سے بہت سے مقالہ نگار اپنا مکمل مقالہ پیش نہ کر سکے جس کی وجہ سے تشنگی باقی رہی ۔ مقالہ نگاروں نے اگر چہ اس ادب اطفال کو تخلیق کرنے اور اس ادب کو نئے سائنسی تقاضوں کو پورا کرنے کی سفارش کی تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ادب کو کیسے بچوں تک پہنچایا جائے ۔
علاوہ ازیں میری تجویز ہوگی کہ بچوں کے ادب کیلئےقومی سطح پر ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے اور ادب اطفال میں بہترین لکھنے والوں کو انعامات سے نوازا جائے ۔ ایسے اجلاس منعقد کرنے سے اگر چہ بین الاقوامی سطح پر ایک طرح کا ربط پیدا ہو گیا اور قلمکاروں کو ایک دوسرے کو سننے کا موقع ملا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے سیمینار ہر ریاست بلکہ ضلعی سطح پر منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ اردو اخبارات کو بچوں کے ادب کے لیے کچھ حصہ مخصوص کر لینا چاہیے تاکہ ادب اطفال کے ادیبوں کو جگہ دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
رابطہ۔7006738436