موجودہ دور میں ملک کی کئی ریاستوں کی طرح جہاں جموں و کشمیر میں بھی بجلی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے اور تقریباً ساری چیزیں بجلی سے ہی چلتی ہیں۔وہیں بجلی کی عدم دستیابی اور آنکھ مچولی سے زندگی مُرجھا سی جاتی ہےاور نظامِ زندگی کے زیادہ تر شعبے متاثر ہوجاتے ہیں ،جس کا براہِ راست اثر عام لوگوں پر پڑتا ہےاور اُنہیں درپیش مسائل و مصائب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
جموں و کشمیر خصوصاً وادیٔ کشمیر میں تو عرصۂ دراز سےنہ صرف گرمیوں میںبجلی کی صورت حال ناپائیدار رہتی ہے بلکہ سردیوں میںتوبجلی کی موجودگی کا نظام ناقص ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر منصفانہ رہتا ہے۔ہر سال بجلی کی عدم موجودگی کے خلاف جب بھی عوامی ردِعمل سامنے آتا رہتا ہے تویہاں کی حکومت اور سرکاری انتظامیہ وہی روایتی کہانیاں اور دلیلیں دُہراتے چلے جاتے ہیںجو یہاں کی سرکاریںپچھلی نصف صدی سے لوگوں کو سُناتی چلی آرہی تھیں۔چنانچہ گذشتہ چند برسوں کے دوران بھی جب بجلی کی کمیابی ،اس کی پیداوار میں کمی ،اس کی چوری ،فیس کی وصولیابی ،شمالی گرڈ کے قرضے اور مزید بجلی خریداری کے متعلق سرکاری رپورٹیں ، تفاصیل، دلیلیں اور وضاحتیں عوام کے سامنے لائی گئیں اورموسم سرما میں صارفین ِ بجلی (میٹر شدہ اور غیر میٹر شدہ )کو شیڈول کے مطابق بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو یہاں کے صارفین بجلی نے بالاخر سرکاری اعلانات پر اکتفا کرلیا،لیکن ان چند برسوں کے دوران بھی زیادہ تر علاقوں میں صارفین بجلی کونہ ہی مقررہ شدہ شیڈول کے مطابق بجلی فراہم رہی اور نہ ہی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاتا رہا بلکہ ان برسوں کے دوران بجلی فیس میں اضافہ در اضافہ ہوتا رہا اور سختی کے ساتھ صارفین بجلی سے مقررہ فیس وصول کیا جاتارہا۔
مرتا کیا نہیں کرتا کے مصداق صارفین بجلی کو ہر ستم سہنا پڑا،جبکہ اُن کی زندگی پہلے ہی بے روز گاری ،ہوش رُبا مہنگائی ،ناجائز منافع خوری نے دوبھر کردی ہے۔اب سُننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ یہاں کی موجودہ ڈبل انجن سرکار کی طرف سے ’پیک اوورز‘ کے دوران بجلی کے استعمال پر 20فیصد اضافی فیس سرچارج کرنے کی تجویز بھی زیر غورہے۔جس پراگرچہ یہاں کی یہاں کی تقریباً سبھی اپوزیشن سیاسی پارٹیوں نے سخت تنقید کی ہے اور اسے کشمیری عوام کے ’بڑی ناانصافی ‘ قرار دیا ہے جو پہلے ہی معاشی بحران سے دوچار ہیں۔ظاہر ہے کہ شدید سردیوں کے ایام میں صبح اور شام کے اوقات میں گھروں کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہےاور ان اوقات میں اس کی قیمت میں اضافہ کرنا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ تعجب ہے کہ ایک طرف حکومت جموں و کشمیر کے عوام کو درپیش مسائل سے راحت پہنچانےکا دعویٰ کرتی رہتی ہے اور دوسری طرف اُن کے مسائل میں اضافہ کرنے سے گریز نہیںکرتی۔موجودہ منتخب سرکار نے اقتدار سنبھالنے کے قبل عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ تمام صارفین بجلی کو ماہانہ دو سو یونٹ بجلی فراہم کی جائے گی ،اور اسی طرح کے کئی اور دعوے بھی کئے گئے تھے،لیکن تاحال منتخبہ سرکار کا کوئی دعویٰ یا وعدہ وفا نہ ہوسکا اور صورت حال وہی ہے جو برسوں سے چلی آرہی ہے۔جس کے نتیجے میں اس ڈبل انجن سرکار کے خلاف عوام کی بد ظنی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہےاور وہ حکومت کی پالیسیوں سے مایوس ہورہے ہیں۔
ایسا محسو س ہورہا ہے کہ موجودہ منتخبہ سرکار تواتر کے ساتھ ایسا کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہوچکی ہے ،جس سے یہاں کے عوام کا فلاح و بھَلا ہوسکے۔ بَس حکومت اپنی ناقص روایتی حکمتِ عملی اور بوسیدہ پالیسیوں کے تحت کام چلاکر اپنی مدت ِ اقتدار پورا کررہی ہے۔حالانکہ عصرِ حاضر میں بجلی کتنی اہمیت کی حامل ہے،اس سے کوئی فردِ بشر ناواقف نہیں،جبکہ زندگی کا تقریباً سارا نظام بجلی پر ہی منحصر ہے۔اگرچہ وادی بھر میں بجلی کے ناجائز استعمال پر قدغن لگ چکی ہے،صارفین بجلی پہلے سے بہت زیادہ فیس بھی ادا کررہے ہیں،شہروں،قصبوں اور دیہات کے بیشتر علاقوں میں میٹر بھی نصب کئے جاچکے ہیں، کٹوتی شیڈول مرتب کرکے بھی بجلی سپلائی مقررہ شیڈول کے مطابق جاری نہیں رہتی ہےاور اسکے بعد بھی صبح اور شام کے اوقات میں بجلی فیس کا ٹیرف بڑھانا چاہتی ہے ، ایک حیران کُن بات ہے۔جموں وکشمیر کی انتظامیہ کواس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئےاور صدق دلی کے ساتھ صارفین بجلی کو شیڈول کے مطابق مہیا رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرےاور صارفین بجلی پر مزید بوجھ ڈالنے سے باز آنا چاہئے۔