معراج وانی
تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان آریاؤں کے زمانے سے ہی تعلیم و تربیت کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں علم کو محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ شخصیت سازی، فکری بالیدگی اور حقیقتِ کائنات کے ادراک کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔اسی روشن علمی روایت کے سب سے درخشاں ناموں میں آریا بھٹ کا ذکر ناگزیر ہے، جنہوں نے ریاضی اور فلکیات میں ایسی بنیادیں رکھیں کہ دنیا آج بھی ان کی علمی خدمات کی معترف ہے۔ صفر (Zero) کے تصور کو باقاعدہ علمی سانچہ دینے سے لے کر سیاروں کی گردش کے حساب تک، آریا بھٹ نے انسانی فکر کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔ اسی عہد میں چانکیہ، پتن جلی، سشروت، چارک، واسی شٹھ جیسے نابغۂ روزگار اہلِ علم نے ہندوستان کو علومِ طبیعیات، فلسفہ، طب اور ریاضی کا مرکز بنا دیا۔نالندہ اور تکششیلا جیسی عظیم درسگاہیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ قدیم ہندوستان علم کا عالمی مرکز تھا، جس کی طرف دنیا بھر کے طالب علم کھنچے چلے آتے تھے۔
مسلمانوں کے دورِ حکومت میں علم و تحقیق کا عروج :
جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو یہاں کی علمی روایت نے ایک نئی کروٹ لی۔ مسلمان حکمرانوں نے تعلیم کو محض طبقاتی امتیاز کے بجائے انسان سازی اور ریاستی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیا۔اس دور میں مساجد و مدارس، مکتب، خانقاہ، دارالعلوم اور کتب خانے اس طرح قائم کیے گئے کہ پورے برصغیر میں علم کا جال بچھ گیا۔ سلطان التمش، فیروز شاہ تغلق، لودھی اور خلجی حکمرانوں نے مختلف شہروں میں درجنوں مدارس قائم کیے جہاں عربی، فارسی، فقہ، حدیث، فلسفہ، منطق، ریاضی اور طب پڑھائی جاتی تھی۔مغلیہ دور — تحقیق و تہذیبی تربیت کا سنہری زمانہ رہا ۔اکبر، جہانگیر اور شاہجہان کے ادوار میں علم کو نئی وسعتیں حاصل ہوئیں،مختلف زبانوں کے علمی ذخائر کے تراجم ہوئے،درباروں میں فلسفہ و ادب کی محافل سجتی تھیں،دارالشفاؤں میں طب کی تعلیم منظم شکل میں دی جاتی تھی۔مسلمانوں نے تعلیم کو عام انسان تک پہنچایا، اس میں کوئی ذات پات یا طبقاتی رکاوٹ نہیں تھی۔یہی وہ دور ہے جب برصغیر دنیا کے تعلیم یافتہ علاقوں کے برابر کھڑا تھا۔
انگریزی دور:جوں ہی انگریزوں نے ہندوستان پر سیاسی قبضہ جمایا، آزادی چھن گئی لیکن تعلیم کا چراغ بجھنے کے بجائے اور روشن ہو گیا۔ یہ غلامی کا دور بہرحال تعلیمی ارتقا میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
فورٹ ولیم کالج (1800ء) : لارڈ ویلزلی کے قائم کردہ فورٹ ولیم کالج نے ہندوستانی زبانوں اور جدید نثر کی تشکیل میں تاریخی کردار ادا کیا۔ یہاں اردو، ہندی، فارسی اور بنگلہ زبان کی اعلیٰ معیاری کتابیں تیار ہوئیں،مترجمین، اساتذہ اور ادیبوں کی نئی نسل وجود میں آئی۔دہلی کالج نے ایک ہی درسگاہ میں مشرقی و مغربی علوم کو یکجا کر کے جدید تعلیم کی بنیاد رکھی۔ یہاں طبیعیات، فلکیات، تاریخ، جغرافیہ، طب اور فلسفہ کے ساتھ عربی و فارسی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔یہی ادارہ آزاد، ذکاء اللہ، سید احمد اور دیگر عظیم ادیبوں کا علمی سنگِ میل بنا۔
علی گڑھ کالج جدید تعلیم کا مینار : 1875ء میں سر سید احمد خان نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج (علی گڑھ کالج) کی بنیاد رکھی، جس نے مسلمانوں کی فکری سمت بدل دی۔یہ ادارہ مشرق و مغرب کے امتزاج، جدید سائنس، اخلاقی تربیت، علمی آزادی اور سماجی اصلاح کا مرکز بنا۔علی گڑھ تحریک نے برصغیر کے مسلمانوں کے اندر سوچنے، پڑھنے، تحقیق کرنے اور بدلتی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کا حوصلہ پیدا کیا۔غلامی کے اندھیروں میں بھی یہ ادارے تازہ ہوا کے وہ جھونکے تھے جنہوں نے ہندوستان کو فکری طور پر زندہ رکھا۔
آزادی کے بعد کا تعلیمی سفر۔تعمیر ِ نو اور معیار کی جدوجہد : 1947ء میں آزادی کے بعد ہندوستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا تھا، لیکن ملک کے قائدین نے پہلا عملی قدم یہی اٹھایا کہ تعلیم کے بغیر قوم کی تعمیر ممکن نہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد جدید ہندوستان کے تعلیمی معمار :
آزادی کے بعد پہلے وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے مولانا آزاد نے وہ بیج بوئے جن کی فصل آج تک ہندوستان کا تعلیمی نظام کاٹ رہا ہے۔ان کی خدمات میں:UGC کا قیام ،IITs کی بنیاد ،AICTE کی تشکیل سائنسی و تحقیقی اداروں کی سرپرستی جدید نصاب کی تشکیل ہوئی۔مولانا آزاد کے نزدیک تعلیم قوم کی آزادی اور ترقی کا ستون تھی۔
ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام — تعلیم، سائنس اور امید کا نام : ڈاکٹر عبدالکلام نے نہ صرف سائنس میں انقلاب برپا کیا بلکہ کروڑوں نوجوانوں کو تعلیم سے محبت کرنا سکھایا۔
ان کا فلسفہ تھا:’’پڑھو، سوچو، ایجاد کرو، اور دنیا کو بہتر بنانے کا عزم کرو۔‘‘انہوں نے تعلیم کو تخلیقیت، اخلاق، تحقیق اور سچائی کا مجموعہ قرار دیا۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن اور نہرو کی خدمات :ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اعلیٰ تعلیم، اساتذہ کے احترام اور فلسفیانہ شعور کو فروغ دیا، جب کہ نہرو نے ملک میں سائنسی ذہن کی بنیاد استوار کی جس کا نتیجہ آج بھارت کے مضبوط تحقیقی اداروں اور سائنسی کامیابیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
قومی تعلیمی پالیسیاں اور ترقی : آزادی کے بعد ملک میں مسلسل ایسی پالیسیاں بنیں جنہوں نےمعیارِ تعلیم،سائنس و ٹیکنالوجی،اخلاقی تربیت،مساوی مواقع،اور تحقیق کو نئی جہتیں بخشیں۔آج ہندوستان میں ہزاروں یونیورسٹیاں، لاکھوں اسکول، تکنیکی اور سائنسی ادارے اور بے شمار تحقیقی مراکز اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہمارے قائدین نے تعلیم کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر استوار کیا۔ لیکن اگر ہم اپنی یو ٹی جموں و کشمیر کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمارا تعلیمی نظام دو انتہاؤں کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔نجی اداروں میں تعلیم محض ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، کتابیں اور یونیفارم ایک تجارت بن چکے ہیں، اور والدین کی مجبوریوں کا کھلے عام استحصال ہو رہا ہے۔دوسری طرف سرکاری اسکولوں میں عدم جوابدہی، غیر سنجیدگی، کمزور نگرانی، اور سماجی بے اعتنائی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ایک عام والدین پریشان، طالب علم دباؤ کا شکار اور تعلیمی مستقبل غیر یقینی کیفیت میں ہے۔
دوسری ریاستوں سے سیکھنے کی ضرورت :لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ہمیں کئی ایسی روشن مثالیں ملتی ہیں جہاںسرکاری اسکولوں نے معیارِ تعلیم میں تدریس، سہولیات اور نتائج میںنجی اسکولوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔دہلی، اتر پردیش، کیرالہ، تمل ناڈو، کرناٹک اور دیگر جنوبی ریاستوں میں سرکاری اسکولوں نے جس طرح خود کو بدل کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، وہ ہمارے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہے۔جب وہ ریاستیں اپنے تعلیمی نظام میں انقلاب لا سکتی ہیںتو جموں و کشمیر کیوں نہیں؟
ایک اجتماعی ذمہ داری :یہ کام صرف حکومت کا نہیں، بلکہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔والدین ،اساتذہ ،انتظامیه سماجی تنظیمیں اور تعلیمی رہنما اگر سب ایک ساتھ قدم اٹھائیںتو جموں و کشمیر کے اسکول بھی وہی معیار حاصل کر سکتے ہیں جو ملک کی بہترین ریاستوں میں نظر آتا ہے۔آئیے ہم سب غفلت، بے حسی اور شکایت کی روش چھوڑ کرایک ذمہ دار شہری بنیں،اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔کیونکہ’’اگر آج ہم نے تعلیم کو سنجیدگی سے نہ لیا،تو کل ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔‘‘
[email protected]