بلال فرقانی
سرینگر//دنیا بھر میں ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے ٹیلی ویژن کے اْس لازوال کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جاتا ہے، جس نے معلومات، تعلیم، تفریح اور سماجی ربط کو نئی جہت دی۔ اگرچہ آج دنیا ڈیجیٹل انقلاب کے دہانے پر کھڑی ہے اور میڈیا کے متعدد پلیٹ فارم سامنے آچکے ہیں، مگر ٹیلی ویژن کے اثرات اب بھی کم نہیں ہوئے، بالخصوص کشمیر جیسے خطے میں، جہاں تصویر، خبر اور بیانیہ ہمیشہ خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔تیزی سے ترقی کرتے ڈیجیٹل دور نے ناظرین کی عادات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سمارٹ فونوں، او ٹی ٹی پلیٹ فارموں، یوٹیوب اور سوشل میڈیا نے پرانے ذرائع ابلاغ کو چیلنج ضرور کیا، لیکن ٹیلی ویژن نے اپنی جگہ مکمل طور پر کھونے کے بجائے خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے بقا کا راستہ نکالا ہے۔ کشمیر میں بھی یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے جہاں گھریلو تماشائیوں سے لے کر سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں تک ٹیلی ویژن آج بھی ایک اہم ذریعہ اطلاع ہے۔ایک معروف صحافی و تجزیہ کارسبط محمد حسن کا کہنا ہے’’ڈیجیٹل میڈیا رفتار دیتا ہے، مگر ٹیلی ویژن اعتبار دیتا ہے اور کشمیر کو ہمیشہ اعتبار کی تلاش رہی ہے۔‘‘بیشک نوجوان نسل اسکرین رکھنے والے ہر پلیٹ فارم کی طرف بڑھ چکی ہے، تاہم بحران، موسم کی صورتحال، تعلیم، کھیل، گورننس اور پالیسی مباحث کی قابلِ اعتماد ترسیل کیلئے ٹیلی ویژن بدستور اولین حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر کشمیر میں متعدد بحرانوں اور انٹرنیٹ بندشوں کے حالات میں ٹیلی ویژن نے بارہا اپنا کردار ثابت کیا ہے۔ پائین شہر سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ ناظر محمد شعبان کا کہناہے’’انٹرنیٹ بند ہوجائے تو خبر اور دنیا سے جڑنے کا سب سے مضبوط وسیلہ آج بھی ٹیلی ویژن ہی ہے۔‘‘ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ میڈیا کی بدلتی دنیا میں ٹیلی ویژن بقا کی دوڑ میں نہیں، بلکہ ارتقا کی دوڑ میں ہے۔ کشمیر میں مقامی نیوز چینلوں، تعلیمی اور ثقافتی پروگرامنگ، اسپورٹس کوریج نے نوجوان نسل کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنایا ہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ انضمام اور ڈیجیٹل براڈکاسٹنگ نے اس کے اثرات مزید بڑھا دیے ہیں۔سماجی کارکن انعام الحق کا کہنا ہے’’ٹیلی ویژن اب صرف ایک ڈبہ نہیں ، یہ اجتماعی احساسات، شناخت اور تبدیلیوں کا ڈیجیٹل نوشتہ بن چکا ہے۔‘‘اس مناسبت سے ورلڈ ٹیلی ویژن ڈے نہ صرف ایک یاد دہانی بلکہ ایک اعتراف بھی ہے کہ ڈیجیٹل دور میں شناخت کھونے کے بجائے، ٹیلی ویژن نے نئی شناخت تراشی ہے اور کشمیر میں اس کی معنویت آج بھی مسلم ہے، معتبر ہے اور ناگزیر ہے۔