عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/دہلی میں پیش آئے خوفناک کار دھماکے کے بعد ملک بھرکے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی ایک وسیع، منظم اور ہمہ جہتی کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ وادی کی حساسیت، دہشت گردی کے بدلتے ہوئے حربے اور لاجسٹک نیٹ ورک کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے ریاستی پولیس، مرکزی ایجنسیاں اور انٹیلی جنس یونٹس مکمل طور پر الرٹ ہیں۔ اس بار کارروائیوں کا دائرہ روایتی عناصر تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ ان تمام سیکٹرز کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں دہشت گرد عناصر کے بالواسطہ سہولت کار بننے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ گاڑیوں کے ڈیلرز، کیمیکل ہول سیلرز، سم کارڈ فراہم کرنیوالے ریٹیلرز کے بعد اب ایک نیا اور اہم اقدام سامنے آیا ہے جس کے تحت اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کے لاکرز کی بھی اچانک چیکنگ کی جا رہی ہے۔
دہلی دھماکے کی تحقیقات کے ابتدائی اشاروں نے سکیورٹی ایجنسیوں کو متنبہ کر دیا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد، تکنیک اور انداز نہ صرف جدید ہے بلکہ اس میں مقامی اور بین ریاستی نیٹ ورکس کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق بعض شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ دھماکہ خیز مواد کی ترسیل اور اس کی تیاری میں مختلف چینلز کا استعمال ہوا، جن میں کیمیکل سپلائی، غیر رجسٹرڈ گاڑیاں، جعلی سم کارڈ اور چند دیگر لوجسٹک ذرائع شامل ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اس وقت ایک جامع نگرانی نظام نافذ کیا گیا ہے جس میں ہر وہ شعبہ شامل ہے جہاں دہشت گرد عناصر کو ممکنہ سہولت مل سکتی ہے۔
جموں وکشمیر کے لگ بھگ سبھی اضلاع میں گزشتہ دو دنوں سے گاڑیوں کے ڈیلرز کی سخت تلاشی جاری ہے۔ پولیس کی خصوصی ٹیمیں اچانک شورومز اور ورکشاپس پر پہنچ کر رجسٹریشن ریکارڈ، تازہ ٹرانزیکشنز، خریداروں کی شناخت، اسٹاک کی تفصیلات اور مشکوک سرگرمیوں پر تحقیقات کر رہی ہیں۔ پولیس کے مطابق ماضی میں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں جعلی دستاویزات یا فرضی ناموں پر خریدی گئی تھیں۔ کئی ڈیلرز کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ کسی بھی صارف کو غیر مکمل یا نامکمل کے وائی سی کی بنیاد پر گاڑی فروخت کرنا ناقابل معافی جرم تصور کیا جائے گا۔ ایک سینئر پولیس افسر نے یو این آئی کو بتایا کہ سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ہر گاڑی کے لین دین، خرید و فروخت اور شناختی ریکارڈ کی تصدیق ضروری ہے۔ جہاں بھی خلاف ورزی ملے گی، کارروائی لازمی ہوگی۔
اسی طرح کی کارروائیاں کھاد اور کیمیکل فروخت کرنے والے دکانداروں کے خلاف بھی جاری ہیں۔ دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں بعض کیمیکلز کے غلط استعمال کے خدشے کے پیش نظر پولیس نے وادی بھر میں درجنوں سپلائی مراکز کی تلاشیاں لی ہیں۔ دو دن کے اندر کئی ہول سیلرز اور فارمر سپلائی اسٹوروں سے خریداری کے ریکارڈ حاصل کیے گئے ہیں۔ دکانداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہر کسٹمر کی شناختی دستاویز محفوظ رکھی جائے، خریدی گئی مقدار درج کی جائے، اور اگر کوئی نامعلوم شخص غیر معمولی مقدار میں کیمیکل لیتا ہے تو فوری طور پر متعلقہ تھانے کو اطلاع دی جائے۔سم کارڈ فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی سکیورٹی اداروں نے خصوصی مہم شروع کی ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، دہشت گرد عناصر جعلی کے وائی سی، دوسرے افراد کی چوری شدہ شناخت یا نامکمل دستاویزات کا استعمال کر کے سم کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں بعد ازاں رابطے اور ہدایات کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیکورٹی مہم کا ایک نیا پہلو جس نے عوام اور میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے، وہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کے لاکرز کی اچانک تلاشی ہے۔ صحت کے محکمے نے سکیورٹی ایجنسیوں کی سفارش پر یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ ایسے غیر قانونی عناصر کو بے نقاب کیا جاسکے، جو اسپتالوں کی حساسیت کا فائدہ اٹھا کر مشکوک سرگرمیوں کے لیے جگہ پیدا کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، کچھ اسپتالوں میں پچھلے چند ہفتوں کے دوران اسٹاف لاکرز سے ایسی اشیا ضبط کی گئی ہیں جو باقاعدہ پروٹوکول کے خلاف تھیں۔ محکمہ صحت نے وادی کے تمام بڑے اسپتالوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہر یونٹ میں لاکر چیکنگ کو لازمی بنائیں، چاہے وہ آپریشن تھیٹر کا عملہ ہو، لیبارٹری ٹیکنیشنز ہوں یا وارڈ اسٹاف۔
حکام نے بتایا کہ یہ قدم صرف سکیورٹی نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ انتظامی شفافیت کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسپتال حساس جگہیں ہیں، یہاں ایک غلطی بڑے واقعے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے لاکر چیکنگ ایک معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔افسر کے مطابق، اگرچہ بہت سے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے نے اسے ایک اچانک اور غیر متوقع اقدام قرار دیا ہے، لیکن مجموعی طور پر اس مہم کو صحت نظام میں شفافیت اور جوابدہی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔سڑکوں اور شاہراہوں پر بھی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ جموں-سری نگر ہائی وے، قاضی گنڈ ٹنل، بانہال ٹنل، ایئرپورٹ روڈ، لال چوک اور دیگر حساس مقامات پر خصوصی ناکے قائم کیے گئے ہیں جہاں گاڑیوں، مسافروں اور سامان کی اسکیننگ جدید آلات کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ سنائفر ڈاگز، بم ڈٹیکشن ڈیوائسز اور جدید سرویلنس سسٹم تعینات کر دیے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں زیرو ٹالرینس پالیسی نافذ ہے اور ہر ضلع کے ایس ایس پی کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی مسلسل نگرانی کریں، غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کے استعمال پر پابندی سخت کریں، کیمیکل خریداری کو مانیٹر کریں اور ٹیلی کمیونی کیشن نیٹ ورک میں موجود خامیوں کو فوری دور کریں۔
دہلی دھماکے کے بعد کشمیر میں شروع کیا گیا یہ کریک ڈاؤن محض ایک وقتی کارروائی نہیں بلکہ ایک جامع حکمت عملی ہے۔ بظاہر یہ اقدامات سخت نظر آتے ہیں، مگر سکیورٹی حکام کا ماننا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات اور ملی ٹینسی کے نئے حربوں نے انہیں مجبور کیا ہے کہ وہ معمول سے ہٹ کر اقدامات اٹھائیں۔ ایک سینئر افسر نے کہا کہ ہم کسی بھی لنک کو چھوڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ چاہے وہ گاڑیوں کی خرید و فروخت ہو، کیمیکل کی سپلائی ہو، سم کارڈ کا اجرا ہو یا اسپتالوں کی اندرونی سرگرمیاں—ہر شعبہ اہم ہے۔
دہلی کار دھماکے کے بعد جموں و کشمیر میں ہمہ گیر سیکورٹی بندوبست، نگرانی نظام مزید فعال