بلال احمد صوفی
سادہ الفاظ میں صحت مند ذہن کا مطلب ہے کہ انسان کو الجھن اور خلفشار سے دور رہنا چاہیے۔ جب دماغ پرسکون اور صاف ہو تو وہ باتوں کو بہتر طریقے سے سمجھتا، یاد رکھتا اور حاصل کرتا ہے۔ ایسا ذہن جو کھلا اور مطمئن ہو، وہ سننے اور پڑھنے والی چیزوں کو زیادہ اچھی طرح جذب کرتا ہے۔ ایک طالب علم کے لیے صحت مند ذہن سیکھنے کے ماحول کو دلچسپ اور مفید بناتا ہے۔ مقابلے کے اس دور میں کامیابی کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے ہر طالب علم کے پاس صحت مند ذہن ہونا ضروری ہے۔ آج کی اس ورچوئل (آن لائن) دنیا میں ایسا ذہن رکھنا ایک قیمتی نعمت ہے جو زندگی کے درست راستے کی طرف لے جاتا ہے۔
آج کے دور میں عام انسان خاص طور پر طالب علم، ذہنی دباؤ اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، اس لئے ان میں صحت مند ذہن کا پایا جانا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نو عمر طلبہ کے ذہن غیر صحت مند ہو گئے ہیں حالانکہ ان کی عمر سکون کی ہوتی ہے۔ سب سے پہلی وجہ موبائل فون کی لت ہے۔ موبائل فون نے طلبہ کی ذہنی کارکردگی کو کمزور کر دیا ہے اور پورے تعلیمی نظام پر منفی اثر ڈالا ہے۔ کتابیں پڑھنا ذہن کو سکون اور صفائی دیتا ہے، لیکن اسمارٹ فونز کے آنے سے نوجوانوں نے کتابوں سے دوری اختیار کر لی ہے اور ان کے بہتر سوچنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ دوسری بڑی وجہ غیر فعال (بیٹھے بیٹھے رہنے والی) زندگی ہے۔ ورزش انسان کے جسم کو تندرست رکھتی ہے اور دماغ کو چاق و چوبند بناتی ہے، مگر افسوس کہ اب زیادہ تر نوجوان اپنا زیادہ وقت اسمارٹ فون پر سکرولنگ اور کھیلوں میں گزار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی عادت نے نوجوانوں کو جسمانی سرگرمیوں سے دور کر دیا ہے۔ کہاوت ہے کہ ’’صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ رکھتا ہے‘‘ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب انسان باقاعدگی سے ورزش کرے۔ تیسری وجہ گھریلو جھگڑے اور خاندانی مسائل ہیں جنہوں نے کئی طلبہ کے ذہنوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ نوجوانوں نے ذہنی دباؤ کے باعث خودکشیاں کرتے ہیں، جس کی اصل وجہ ذہنی انتشار ہے۔ جب والدین چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے ہیں تو اس کا بُرا اثر بچوں کے ذہن پر پڑتا ہے اور وہ منفی سوچنے لگتے ہیں، جس سے صحت مند ذہن ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے خاندانی مسائل طلبہ میں غیر صحت مند ذہن کی بڑی وجہ ہیں۔ آخر میں صحت مند ذہن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھروں میں تعلیم کا ذاتی، مثبت ماحول پیدا کیا جائے، اِی لرننگ کو کم سے کم رکھا جائےاور بچوں کو کتابوں کے ساتھ مصروف رکھا جائے۔ اس طرح ان کے ذہن تندرست، روشن اور فعال ہوں گے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں ضروری یہ نہیں کہ آپ کے پاس کتنا پیسہ یا کتنے فون ہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ اپنا ذہن کتنا پرسکون اور سرگرم رکھتے ہیں تاکہ زندگی میں بہترین کارکردگی دکھا سکیں۔