غلام قادر جیلانی
تعلیم اور روزگار کا رشتہ انتہائی گہرا ہے۔تعلیم ہی وہ بنیادی ذریعہ ہے۔جس کے ذریعے انسان، علم،ضروری ہنر اور علمی مہارتیں حاصل کرتا ہے جو اسے قابل روزگار بناتے 8ہیں۔تاہم موجودہ تعلیمی نظام کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں روزگار کے لئے ضروری ہنر اور صلاحیتیوں کا فقدان پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اِداروں سے نکلنے والے نوجوان مارکیٹ کے موجودہ ضروریات کے لئے تیار نہیں ہوتے اس سنگین صورتحال کے پیش نظر یہ ناگزیر بن گیا ہے کہ تعلیمی نصاب کو روزگار کے موجودہ ضروریات کے موافق بنایا جا اس سلسلے میں سب سے اہم قدم یہ ہے کہ مختلف صنعتوں اور کارخانوں میں درکار صلاحیتوں کو تعلیم کے ذریعے نکھارا اور ابھارا جائے۔تعلیمی نظام میں مختلف صنعتوں اور کارخانوں سے تعاون کر کے ایسے پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے جو صرف ڈگریاں نہیں بلکہ مارکیٹ کے مانگ کے مطابق ہنر مند افرادی قوت فراہم کریں۔
جموں و کشمیر میں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد موجودہ تعلیمی نظام کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو روزگار کے اس شدید بحران کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ستمبر 2025 تک تین لاکھ ساٹھ ہزار (3,60,000) سے زائد تعلیم یافتہ بے روز گار افراد کا اندراج کیا گیا، ان میں صوبہ کشمیر کے (2,08,000) اور صوبہ جموں کے (1,52,000) افراد شامل ہیں۔ ضلعی سطح پر، اننت ناگ 32,298 بے روزگاروں کے ساتھ سرفہرست ہے، جس کے بعد پلوامہ (28,671)، کٹھوعہ (26,798)، اور سری نگر (23,826) جیسے اضلاع شامل ہیں۔ دوسری طرف، کشتواڑ (8,870) اور ریاسی (12,376) میں یہ تعداد سب سے کم درج کی گئی ہے۔ مردوں کی تعداد (2,33,845) ہے جو بے روزگار خواتین (1,27,301) کی تعداد کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ یہ مجموعی صورتحال تعلیمی پالیسیوں پر فوری اور گہرائی سے نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اگر سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ تعلیمی نظام میں بنیادی اور مثبت تبدیلیاں لائی جائیں، تو بے روزگاری کے سنگین مسئلے پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو نہ صرف سمجھنے، بلکہ اس پر فوری طور عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کی اصل صلاحیتوں کو پہچاننا، نکھارنا، اور انہیں بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کے قابل بنانا ہے۔
تعلیمی اداروں کو یہ ناقص رویہ ترک کرنا ہوگا کہ کلاس میں موجود ہر بچے کے ساتھ یکسانیت برتی جائے، اور نہ ہی سب کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو ایک ہی معیار پر پرکھا جائے۔ یہ بات عقل سے بالا تر ہے کہ جب تین بچوں کے شوق اور رجحانات یکساں نہیں ہو سکتے، تو ایک کلاس کے بیس یا تیس طلبہ کے شوق اور رجحانات کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ لہٰذا، تعلیمی نظام کو تغیر پذیر اور لچکدار ہونا چاہیے، جو ہر بچے کی انفرادی خواہش اور فطری رجحان کے مطابق اس کی صلاحیتوں کو ابھارے۔ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طالب علم وہ مقام حاصل کرے جو وہ دل سے چاہتا ہے۔اس میں والدین اور اساتذہ کا کردار کلیدی ہے۔ انہیں بچوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے اور انہیں اپنی خواہشات کا بوجھ نہیں بنانا چاہیے۔ بلکہ، بچوں کے شوق، جذبے اور فطری رجحانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کی شخصیات میں مثبت نکھار لانا چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمارے نوجوانوں کو تخلیقی، مطمئن، اور روزگار کے قابل بنا سکتا ہے۔
تعلیمی نظام کو روزگار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے وسیع امکانات پیدا کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ متعدد صنعتوں اور شعبوں میں موجود روزگار کی صلاحیتوں کی باقاعدہ نشاندہی کی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ طلبہ میں موجود فطری صلاحیتوں اور رجحانات کو ابھارنے کے لیے ضروری مواقع اور موزوں تربیت موجود ہو۔
طلبہ کو ان کے شوق کے مطابق صحیح سمت میں ابتدا سے ہی تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی طالب علم دستکاری(Handicrafts) کے پیشے میں شوق اور دلچسپی رکھتا ہے، تو اسے ایسی اعلیٰ معیار کی تربیت دی جائے جس سے وہ ایک ماہر اور قابلِ قدر دستکار بن سکے۔اسی طرح، اگر کوئی طالب علم کاروباری صلاحیت اور شوق (Entrepreneurial Skills) رکھتا ہے، تو اسے کاروبار کے اصول، انتظام اور جدید ہنر سکھا کر ایک کامیاب کاروباری (Entrepreneur) بنایا جا سکتا ہے۔موثر اور مثبت رہنمائی کے ذریعے مختلف صنعتوں اور شعبوں جیسے سیاحت (Tourism)، باغبانی(Horticulture)، تعمیراتی کاموں (Construction) وغیرہ میں بھی روزگار کے حصول کی گنجائش کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہمارے یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یہ مقصد حاصل نہ ہو تو کسی محفوظ سرکاری نوکری پر زور دیا جاتا ہے۔ یہی روایتی سوچ اس چیز کی اصل وجہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بڑی بڑی ڈگریوں کے باوجود بھی اپنے لیے روزگار کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ہمیں اس فرسودہ سوچ کو ترک کر کے وسعت شعبہ جات اور مہارتوں پر مبنی معاشی ترقی کو فروغ دینا ہوگا۔
اگرچہ حکومت نے مرکزی اور یونین ٹیریٹری کی سطح پر جموں و کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے خود روزگاری (Self-Employment) کے وسیع مواقع فراہم کرنے کی کئی اہم اسکیمیں، جیسے پردھان منتری روزگار یوجنا، اسکل ڈیولپمنٹ اسکیم، ممکن اسکیم ، نیشنل لائیولی ہڈ اسکیم، اسکل انڈیا، پردھان منتری کوشال وکاس یوجنا وغیرہ شروع کی ہیں، لیکن ان اسکیموں کے تحت ملنے والے مراعات اور فوائد تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں میں عدم بیداری (Lack of Awareness) کی وجہ سے پہنچ نہیں پاتے۔اس مسئلے کے حل کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ان تمام اہم اور روزگار سے متعلق اسکیموں کو اسکولی نصاب کا مستقل حصہ بنایا جائے۔ تعلیمی نظام کا یہ بنیادی جزو ہونا چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو ان اسکیموں کے بارے میں تیار کرے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان ان کا بھرپور فائدہ اٹھا کر باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔
اس سلسلے میں ایک مؤثر اور مثبت کوشش عوامی نجی شراکت (Public-Private Partnership – PPP) کی صورت میں ہونی چاہیے۔فوری طور پر کچھ اہم انڈسٹریز (Industries) کی نشاندہی کی جائے جو نوجوانوں کو روزگار دے سکیں۔ان صنعتوں کو تعلیمی اداروں کے ساتھ باقاعدہ طور پر جوڑا جائے۔نوجوانوں کے لیے مخصوص اور عملی تربیتی پروگرام (Training Programs) شروع کیے جائیں۔اس طرح کی قریبی شراکت سے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان فوری روزگار کے قابل بن جائیں گے۔ اس ماڈل کی کامیابی کی ایک مثال سکی ویو روپ وے پٹنی ٹاپ کی صورت میں سیاحت کے شعبے میں پہلے ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تعاون روزگار کے وسیع امکانات پیدا کرنے کا اہم عنصر ہے۔
ضروری ہنر (Essential Skills) اور پیشہ ورانہ تعلیم (Vocational Training) کے ساتھ ساتھ، یہ ناگزیر ہے کہ ہمارے طریقہ تدریس (Teaching Methodology) میں بھی بنیادی بدلاؤ لایا جائے۔
پڑھانے کے روایتی طریقے روزگار کے بڑھتے ہوئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی لیے، تدریس کے مؤثر طریقے (Effective Teaching Methods) روزگار کی فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ یہ طریقے طلبہ کو ان عملی (Practical) اور سافٹ مہارتوں (Soft Skills) سے آراستہ کرتے ہیں جنہیں آجر (Employers) قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تنقیدی سوچ (Critical Thinking)، باہمی تعاون (Collaboration)، اور مسائل کا حل (Problem-Solving) جیسے طریقہ ہائے کار محض ڈگریوں کی تقسیم نہیں کرتے بلکہ تعلیم اور حقیقی دنیا کے کام کاج کے درمیان موجود وسیع خلا کو پُر کرتے ہیں، اور اس طرح فارغ التحصیل نوجوانوں کی قابلِ روزگار ہونے کی صلاحیت میں براہِ راست اضافہ ہوتا ہے ۔
بچوں کو اچھا روزگار اور ایک بہتر مستقبل فراہم کرنے میں استاد اور والدین کا مضبوط اور فعال رشتہ معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ استاد اور والدین مل کر بچے کی صلاحیتوں کی مشترکہ نگرانی کر سکتے ہیں اور اسے ایک اچھے مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا، تعلیمی نظام میں استاد اور والدین کی فعال شراکت داری (Active Partnership) کو صرف ایک تجویز نہیں بلکہ ایک لازمی اور اہم جزو ہوناچاہیے ۔
آخر پر یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ تعلیمی نظام میں جرأت مندانہ اور بروقت بدلاؤ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو بہت حد تک حل کر سکتا ہے۔ تعلیم کو محض ڈگری کی فراہمی سے نکال کر روزگار کے مواقع سے ہم آہنگ (Aligning Education with Employment)کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی اختراعی صلاحیتوں کو ابھارنا۔مختلف صنعتوں اور کارخانوں کے ساتھ فعال شراکت داری (Active Partnership)، تدریس کے روایتی طریقوں کے بجائے فعال تدریسی طریقوں (Active Teaching Methods) کا استعمال،اساتذہ اور والدین کی فعال شراکت داری کو یقینی بنانے کے علاوہ، حکومت کو بھی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سنجیدگی اور حکمت عملی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔ مختلف صنعتوں اور کارخانوں میں روزگار کے مواقع کو فروغ دینا چاہیے، اور ساتھ ہی، سرکاری محکموں میں تمام خالی پڑی آسامیوں کو ترجیحی بنیادوں پر پر کرنا چاہیے۔ ان مشترکہ کوششوں سے، نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی بے روز گاری سے پیدا شدہ بے چینی کو کم کیا جاسکتا ہے، بلکہ سماج میں معاشی اور معاشرتی خوشحالی کی بحالی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔