یو این آئی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ایک اہم آئینی فیصلے میں جمعرات کے روز کہا ہے کہ ریاست کے گورنر ریاستی اسمبلیوں سے منظور شدہ بلوں کو غیر معینہ مدت تک روک کر نہیں رکھ سکتے ۔ عدالت نے اگرچہ آئین کے آرٹیکل 200 اور 201 کے تحت گورنر یا صدر کے لیے کوئی مقررہ مدت طے کرنے سے انکار کیا، لیکن یہ بھی کہا کہ بلاوجہ طویل تاخیر کی صورت میں عدالت رٹ آف مینڈیمس جاری کرکے متعلقہ اتھارٹی کو ایک مخصوص مدت میں فیصلہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے ۔ اس سے قبل اپریل میں عدالت نے پہلی بار کہا تھا کہ گورنر کی جانب سے صدر کو بھیجے گئے بل پر تین ماہ میں فیصلہ ہونا چاہیے ۔صدر دروپدی مرمو نے آرٹیکل 143(1) کے تحت سپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی کہ بلوں پر فیصلہ کرنے کی کوئی مدت مقرر کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس بی آر گوائی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اے ایس چندورکر پر مشتمل آئینی بنچ نے سماعت کے بعد کہا کہ حتمی مدت مقرر کرنا آئین کی لچک کے خلاف ہوگا۔ کئی ریاستوں نے ریفرنس کی مخالفت کی جبکہ اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ عدالت آئینی عہدوں کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب سینئر وکلاء نے دلیل دی کہ تاخیر سے آئینی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے ، اس لیے مناسب مدت ضروری ہے ۔