رئیس یاسین
آج کے ڈیجیٹل دور میں سائبر کرائم ایک سنگین سماجی مسئلہ بن کر اُبھرا ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے WhatsApp، Facebook، Instagram اور Snapchat، پر ایسے نامعلوم افراد کی سرگرمیوں میں تشویش ناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو معصوم لوگوں کو فراڈ اور بلیک میلنگ کا نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ مجرم سب سے پہلے متاثرہ شخص کی پروفائل کو خاموشی سے مانیٹر کرتے ہیں۔ چند دن تک تصاویر، پوسٹس اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد وہ مناسب وقت دیکھ کر رابطہ قائم کرتے ہیں۔ یہ لوگ دوستی اور ہمدردی کا ڈھونگ رچا کر اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس غیر اخلاقی سرگرمی میں کشمیر کے کچھ نوجوان بھی شامل پائے گئے ہیں، جو معاشرتی بگاڑ کے ایک نئے پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔
عام طور پر اسکیمر WhatsApp پر ویڈیو کال کرتے ہیں اور سامنے آتے ہی ویڈیو ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ بعد میں یہی ویڈیو ان کے لیے بلیک میلنگ کا بنیادی ہتھیار بن جاتی ہے۔ وہ متاثرہ فرد کو دھمکی دیتے ہیں کہ ویڈیو وائرل کر دی جائے گی اگر انہیں رقم ادا نہ کی گئی۔ کئی لوگ خوف، شرمندگی اور بدنامی کے ڈر سے کسی سے مدد لینے سے بھی ہچکچاتے ہیں، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ گروہ مزید رقم بٹورتے ہیں۔زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ دھوکے باز جعلی پولیس اہلکاروں کے نام سے بھی کال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہو چکی ہے، اسے ہٹانے کے لیے رقم دینا ہوگی۔‘‘ اس جھوٹے دباؤ اور خوف کی وجہ سے ہزاروں لوگ اب تک اس بلیک میلنگ کا شکار بن چکے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ پیشہ ور اسکیمر ہوتے ہیں جن کا واحد مقصد لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر پیسہ لوٹنا ہے۔ متعدد شکایات سائبر پولیس میں درج ہونے کے باوجود کئی گروہ آج بھی فعال ہیں۔ اگر جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل ٹریسنگ اور سخت کارروائی کا موثر استعمال کیا جائے تو ان مجرموں کو پکڑنا ناممکن نہیں۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر پولیس چاہے تو ان مجرموں کو قانون کے شکنجے میں لینا مشکل نہیں، کیونکہ اداروں کے پاس اختیار اور ٹیکنالوجی دونوں موجود ہیں۔ لیکن ملک بھر میں خاص طور پر کشمیر میں یہ جرائم کھلے عام جاری ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ یہ غفلت نہ صرف عوام میں بےچینی پیدا کرتی ہے بلکہ مجرموں کے حوصلے بھی بڑھاتی ہے۔تاہم احتیاط ہر شہری کی اولین ذمہ داری ہے۔ تدبیر یہی ہے کہ کسی بھی نامعلوم اکاؤنٹ یا نمبر کی کال یا ویڈیو کال ہرگز قبول نہ کی جائے۔ WhatsApp اور دیگر سوشل میڈیا سیٹنگز کو مضبوط بنایا جائے،پروفائل فوٹو، اسٹیٹس اور دیگر معلومات کو صرف Contacts Only تک محدود رکھا جائے۔ مشکوک پروفائلز کو بلاک اور رپورٹ کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ کی صورت میں فوراً سائبر پولیس سے رابطہ کیا جائے۔معاشرتی آگاہی، والدین کی رہنمائی، نوجوانوں کی ذمہ داری اور اداروں کی بروقت کارروائی ،یہ سب مل کر ہی اس بڑھتے ہوئے سائبر خطرے کا سدِباب کر سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ مسئلہ مستقبل میں مزید پیچیدہ اور تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔
[email protected]
�������������������