اسد مرزا
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ۱۱؍۱۲؍نومبر کو کینیڈا، میکسیکو، فرانس، برازیل، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور جرمنی کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی اور کثیر جہتی فورم پر ہندوستان کی سفارتی رسائی کو مزید آگے بڑھایا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ۱۲؍نومبر کو نیاگرا،کینیڈا میں جی۔7 وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بھی ملاقات کی، جس میں دو طرفہ تعلقات، تجارت اور یوکرین، مشرق وسطیٰ اور ہند۔بحرالکاہل سمیت عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ہندوستان۔ امریکہ تجارتی مذاکرات
ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا،’’ہم نے دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا، تجارت اور سپلائی چین پر توجہ مرکوز کی۔‘‘بات چیت میں یوکرین، مغربی ایشیا اور انڈو۔ پیسیفک کا بھی احاطہ کیا گیا۔جے شنکر نے مزید کہا کہ انہوں نے اہم عالمی پیشرفت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ’’امریکہ کو ہندوستان کی تشویشات کا بھی ا حترام کرنا ہوگا۔‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے پر ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔تجارتی بات چیت کے دوبارہ شروع ہونے پر ہندوستان، امریکہ سے مزید توانائی خرید سکتا ہے۔پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں وزارت خارجہ نے کہا کہ جے شنکر کی شرکت عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہندوستان کے ’’مسلسل عزم‘‘ کو اجاگر کرتی ہے۔جے شنکر اور روبیو کے درمیان ملاقات بھی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ہندوستان اور امریکہ جاری تجارتی مذاکرات میں مصروف ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ دونوں ممالک ایک نئے تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں۔ٹرمپ نے ہندوستان میں نئے امریکی سفیر کے طور پر سرجیو گور کی حلف برداری کی تقریب کے دوران کہا،’’ہم ہندوستان کے ساتھ ایک معاہدہ کر رہے ہیں جو ماضی کے ہمارے معاہدوں سے بہت مختلف ہوگا۔ ہم ایک منصفانہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ایسا معاہدہ کرنے کے بہت قریب ہیں جو ہر ایک کے لیے اچھا ثابت ہوگا۔‘‘جے شنکر اور سکریٹری روبیو نے ایک ماہ قبل بھی ملاقات کی تھی اور صدر ٹرمپ کے ہندوستانی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد ان کی یہ پہلی بات چیت تھی۔
ہندوستان۔کینیڈا تعلقات
کینیڈا میں جے شنکر نے کینیڈا کی وزیر خارجہ محترمہ انیتاآنند سے ملاقات کی، کیونکہ اوٹاوا قانون نافذ کرنے والے مذاکرات پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔رواں سال میں ان کی پچھلی ملاقاتیں ستمبر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور پچھلے مہینے آنند کے دہلی کے دورے کے دوران ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران کینیڈا نے عالمی قانون نافذ کیے جانے اور دونوں ممالک کی پولیس اور سیکیوریٹی ایجنسیوں کے درمیان بات چیت بڑھانے کو مرکزی کردار دیا ہے۔ جی۔7 وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر آنند سے ملاقات کے بعد، جے شنکر نے ٹویٹ کیا کہ انہوں نے ’’نئے روڈ میپ 2025 کے نفاذ میں پیشرفت حاصل کی ہے اور دو طرفہ تعلقات مزید تعمیر نو کے منتظر ہیں۔‘‘یہ مکالمہ جون میں وزیر اعظم نریندر مودی اورکینیڈین وزیر اعظم مارک کارنی کی ملاقات کے بعد ہو پایا ہے۔ اس سے قبل کینیڈا کے اس الزام کے بعد کہ ہندوستان اس کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث تھا، تقریباً دو سال کے باہمی تعلقات منجمد رہنے کے بعد کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی رابطے کو دوبارہ کھولنے میں مدد فراہم کی۔ستمبر2023 میں اس وقت کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے برٹش کولمبیا میں خالستان نواز علیحدگی پسند رہنما نجار کے قتل کے پیچھے ہندوستانی عہدیداروں کی شمولیت پرعوامی طور پر الزام لگانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آگئے تھے۔تاہم گزشتہ دو سالوں کے درمیان ان کشیدہ تعلقات میں کینیڈا میں نئی حکومت کے آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
بحری سلامتی پر ہندوستان کا موقف
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے میری ٹائم سیکورٹی اور خوشحالی پر جی۔7وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کی ،مہاساگر کے ہندوستانی نقطہ نظر ہند۔بحرالکاہل تعاون، اور سمندری ڈومین میں پہلے جواب دہندہ کے طور پرہندوستان کے علاقائی محافظ ہونے کے ذریعے بحری سلامتی کے لیے ہندوستان کے نقطۂ نظر پر روشنی ڈالی۔X پر شیئر کیے گئے اپنے ریمارکس میںانہوں نے بھروسہ مند اور متنوع سمندری روابط کی ضرورت اور جہاز رانی کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے اور لچکدار راہداریوں کو تیار کرنے میں ہندوستان کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔جے شنکر نے اہم بحری اور زیر سمندر بنیادی ڈھانچے، سمندری خطرات اور اقتصادی جرائم بشمول بحری قزاقی، سمگلنگ اور IUU ماہی گیری کے لیے گہرے بین الاقوامی تعاون کے لیے بہتر تال میل کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے میری ٹائم ڈومین میں پہلے جواب
دہندہ کے طور پر ہندوستان کے ابھرنے، اور مشترکہ مشقوں اور لاجسٹک معاہدوں کے ذریعہ ہند۔بحرالکاہل میں HADR شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش اور عالمگیریت کی دنیا میں قومی اور بین الاقوامی خوشحالی کے لیے سمندری تجارت کی اہمیت کا ذکر کیا۔
یوکرین اور سوڈان پر G-7کا موقف
وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شامل ممالک نے اپنے اجلاس میں یوکرین اور سوڈان کی صورت حال پر جی۔ 7کے موقف سے رضا مندی ظاہر کی،لیکن کیریبین میں کشتیوں پر امریکی فوجی حملوں اور تجارت جیسے متنازعہ مسائل سے دور رہے۔مزید براں وزرائے خارجہ کے گروپ نے یوکرین کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد یوکرین کے وزیر خارجہ اینڈری سیبیہا نے کہا کہ یوکرین کو اپنے شراکت داروں کی مدد کی ضرورت ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہمیں روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔G-7 کے وزراء نے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ روس کے لیے اقتصادی اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں اور روس کی جنگی کوششوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف اقدامات تلاش کررہے ہیں۔مزید براںG-7 کے وزراء نے اپنے مشترکہ بیان میں جنگ زدہ سوڈان میں تشدد میں حالیہ اضافے کی شدید مذمت کی، اور مسٹر روبیو نے انسانی صورتحال کی مذمت کی اور کہا کہ ’’کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘اسلحے اور دیگر مدد کو ختم کرنے کے لیے جو پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)،سوڈانی فوج سے لڑتے ہوئے حاصل کر رہی ہیں۔تنازع میں متحدہ عرب امارات کے کردار کے بارے میں صحافیوں کے سوال پر مسٹر روبیو نے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ RSF کی سپلائی میں کون ملوث ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ کئی مہینوں سے امریکی انٹیلی جنس کے جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ متحدہ عرب امارات، جو کہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، آر ایس ایف کو ہتھیار بھیج رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات آر ایس ایف کی حمایت سے انکار کرتا رہاہے۔
مجموعی طور پر جی۔7وزارئے خارجہ کے اس جلاس میں شرکت کرکے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جہاں ایک جانب عالمی سطح پرمختلف مسائل پر ہندوستان کے موقف کی وضاحت اور اس کے کردار کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیا ، وہیں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس طرح کی کاوشوں کے ذریعے ہی ہندوستان عالمی سطح پر اپنی شبیہ کو ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر مزید مستحکم کرسکتا ہے۔ وہیں دوسری جانب جی ۔7 وزرائے خارجہ کے بیانات کا جائزہ لینے پر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ G-7 میٹنگ میں انھوں نے اُن متنازعہ مسائل پر فوکس کرنے سے گریز کیا جن پر امریکہ کی جانب سے کسی دباؤ کی توقع ہوسکتی تھی اور انھوں نے بہت احتیاط کے ساتھ دیگر مسائل پر اپنے تاثرات بیان کیے۔ لیکن مجموعی طور پر اس میٹنگ کے ذریعے کوئی بھی بڑی پیش رفت یا G-7 کا موقف سامنے نہیں آیا اور اس میٹنگ کو ایک بے نتیجہ میٹنگ قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔
)مضمون نگار سینئر تجزیہ نگار اور میڈیاکینسلٹنٹ ہیں،ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دُبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔رابطہ کے لئے،www.asadmirza.in)