احمد ایاز
جموں و کشمیر میں بڈگام اور نگروٹہ کے ضمنی انتخابات بظاہر دو مخصوص حلقوں تک محدود انتخابی عمل تھے، مگر ان کے نتائج محض مقامی سیاست تک محدود نہیں۔یہ ریاست کی بدلتی سیاسی فضا، عوامی رجحانات اور حکمرانی کے معیار پر ایک غیر رسمی ’’عوامی آڈٹ‘‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگرچہ ان نتائج سے موجودہ حکومت پر کوئی فوری سیاسی اثر نہیں پڑتا، لیکن یہ مستقبل کی سیاسی حکمت عملیوں اور انتخابی بیانیوں کے رخ کا تعین ضرور کرتے ہیں۔
یہ دونوں ضمنی انتخابات 2019 کے بعد کی سیاسی تشکیل میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئے ہیں۔ پہلی بار یہ احساس نمایاں ہوا کہ عوام اب صرف روایتی شناختوں، خاندانی اثرورسوخ یا پارٹی ورثے کی بنیاد پر ووٹ نہیں دے رہے،بلکہ کارکردگی، عملی سیاست، زمینی موجودگی اور جوابدہی کو مقدم سمجھنے لگے ہیں۔بڈگام طویل عرصے سے نیشنل کانفرنس کا مستحکم گڑھ سمجھا جاتا تھا، مگر اس بار پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی واضح اور فیصلہ کن فتح نے سیاسی منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیا۔
این سی کے لیے غیر مبہم پیغام : ۔
بڈگام کے نتائج نے این سی کی سیاسی اور تنظیمی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا۔صرف تاریخی ورثہ اور روایتی ساکھ اب ووٹ کی ضمانت نہیں،’’سیف سیٹ‘‘ کا تصور کمزور پڑ چکا ہےاورعوام اب کارکردگی، موجودگی اور شفافیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔پارٹی کی نچلی سطح پر رسائی اور متحرک ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے،یہ شکست واضح کرتی ہے کہ عوامی ناراضگی بڑھ رہی ہے اور این سی کو تنظیمی و سیاسی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔
پی ڈی پی کی سیاسی بحالی : ۔
بڈگام کی فتح پی ڈی پی کے لیے محض ایک سیٹ کی جیت نہیں—بلکہ سیاسی احیاء کا آغاز ہے۔ یہ کامیابی واضح کرتی ہے کہ پی ڈی پی پر عوامی اعتماد دوبارہ بحال ہو رہا ہے۔نوجوان قیادت کے لیے سیاسی گنجائش بڑھ رہی ہے۔زمینی سطح پر مسلسل رابطہ مہم نے اثر دکھایا ہے،متبادل سیاسی بیانیہ عوام میں قبولیت حاصل کر رہا ہے۔یہ جیت پی ڈی پی کو وادی کی سیاست میں ایک بار پھر مؤثر قوت کے طور پر مستحکم کرتی ہے۔
خاموش ووٹر کا فیصلہ کن کردار : ۔
تقریباً 50 فیصد ٹرن آؤٹ بڈگام جیسے حساس حلقے میں غیر معمولی پیش رفت ہے، جو واضح کرتا ہے کہ خاموش ووٹر دوبارہ متحرک ہو رہا ہے،سیاسی بے حسی کم ہو رہی ہے،عوام فیصلہ سازی میں زیادہ سنجیدگی اختیار کر چکے ہیں۔یہ رجحان مستقبل کی وادی کی سیاست پر براہِ راست اثر ڈالے گا۔
نگروٹہ جموں میں بی جے پی کی غیر معمولی تنظیمی طاقت کا اظہار : ۔
بڈگام کے برعکس جموں خطے میں نگروٹہ کا انتخابی ماحول بالکل مختلف تھا۔ 75 فیصد ٹرن آؤٹ اور بی جے پی کی طاقتور برتری اس بات کا ثبوت ہے کہ جموں میں بی جے پی کا ووٹ بینک نہ صرف مستحکم ہے بلکہ انتہائی منظم اور فعال بھی ہے۔بی جے پی کے بڑھتے ہوئے عوامی اعتماد کے عوامل نگروٹہ کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بی جے پی کی تنظیمی مشینری مضبوط اور ہم آہنگ ہے،پارٹی کا ترقی و استحکام کا بیانیہ جموں میں گہرا اثر رکھتا ہے،عوام نے اسے ایک قابلِ اعتماد اور واضح سیاسی متبادل سمجھا ہے،اپوزیشن جماعتیں اب بھی مؤثر چیلنج دینے کی پوزیشن میں نہیں۔
اپوزیشن کی کمزور موجودگی :
یہ انتخابات اپوزیشن کے لیے کئی سوالات چھوڑ گئے۔تنظیمی ڈھانچے میں واضح کمزوریاں،متبادل بیانیے کا شدید فقدان،عوامی سطح پر رابطے اور موجودگی کا خلا،یہ صورتحال جموں میں اپوزیشن کے لیے آنے والے دنوں میں مزید چیلنجز پیدا کر سکتی ہے۔
سیاسی تقسیم وادی اور جموں کے رجحانات میں بڑھتا ہوا فرق
یہ ضمنی انتخابات ایک بار پھر ثابت کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر سیاسی اعتبار سے دو مختلف رجحانات کا حامل خطہ بن چکا ہے۔وادی میںسخت مقابلہ،کثیرالجماعتی سیاست اورووٹ کا بٹوارہ۔جموں میںیکطرفہ رجحان،بی جے پی کی مضبوط گرفت،یہ فرق آئندہ اسمبلی انتخابات کے نتائج پر گہرا اور براہِ راست اثر ڈالے گا۔
بڈگام کی شکست نے این سی کے اندرونی ڈھانچے اور قیادت کے زمینی رابطے پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پارٹی کو فوری ضرورت ہے:تنظیمی ڈھانچے کی از سرنو تعمیر،نچلی سطح تک مؤثر سیاسی موجودگی،عوامی توقعات کے مطابق نئے اور قابلِ عمل بیانیے کی تشکیل اورقیادت اور کیڈر کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی۔یہ اقدامات کیے بغیر پارٹی کے لیے مستقبل کے انتخابی چیلنجز مزید سخت ہو سکتے ہیں۔
بڈگام کی فتح پی ڈی پی کے سیاسی وجود میں نئی جان ڈال رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں،عوام متبادل قیادت کی طرف زیادہ کشش محسوس کر رہے ہیں،نوجوان قیادت کے لیے سیاسی جگہ وسیع ہو رہی ہے،پارٹی کا زمینی ڈھانچہ دوبارہ متحرک ہو رہا ہے،وادی میں پی ڈی پی کی آئندہ نشستیں بڑھنے کے امکانات واضح ہیں۔
آئندہ اسمبلی انتخابات مخلوط حکومت کا غالب امکان :
موجودہ سیاسی رجحانات یہ واضح کر رہے ہیں کہ جموں میں بی جے پی کی برتری برقرار رہے گی،وادی میں ووٹ تقسیم ہوگا،کسی ایک پارٹی کی واضح اکثریت مشکل،مخلوط حکومت کے امکانات مضبوط تر ہو رہے ہیں۔
سب سے بڑا پیغام عوامی شعور کا سیاسی ارتقاء :
ان ضمنی انتخابات کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ ووٹروں کا رویہ بدل رہا ہے۔صرف جماعت نہیں، کارکردگی اہم،صرف نعروں نہیں عملی نتائج کو اہمیت،خاموشی نہیں،فیصلہ کن کردار۔یہ تبدیلی مستقبل کی سیاست میں ایک نئی سمت متعین کرے گی۔
اختتام : اگرچہ بڈگام اور نگروٹہ کے نتائج سے حکومت پر کوئی فوری اثر نہیں پڑتا، مگر یہ انتخابات واضح کر چکے ہیں کہ جماعتیں اپنی حکمتِ عملی تبدیل کریں گی،بیانیے نئے خطوط پر استوار ہوں گے،عوامی توقعات اب مرکز میں ہوں گی اور سب سے بڑھ کرعوامی شعور آئندہ سیاست کی سب سے بڑی طاقت ہوگا۔یہ ضمنی انتخابات نہیںجموں و کشمیر کی سیاست میں ایک نئے دور کا اشارہ ہیں۔
[email protected]