ویب ڈیسک
آج سے 30 سال قبل الجزائر کے صحرائی مقام سے ملنے والے ایک شہابِ ثاقب کا تجزیہ کرنے کے بعد امریکی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے اس میں پروٹین کے سالمات دریافت کئےہیں جنہیں انہوں نے ’’ہیمولیتھین‘‘ (Hemolithin) کا نام دیا ہے۔تاہم ابھی یہ صرف ایک دعویٰ ہے جو ’’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘‘ (ArXiv.org) نامی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے جہاں پہلے تحقیقی مقالہ جات شائع کیے جاتے ہیں، جس کے بعد ماہرین انہیں کھنگالتے ہیں اور ان کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔کائنات میں زندگی کے نقطہ نگاہ سے یہ دعویٰ بہت غیرمعمولی ہے کیونکہ اگر یہ واقعتاً درست ثابت ہوگیا تو پھر اس مفروضے کو بھی غیرمعمولی تقویت پہنچے گی جس کے مطابق زمین پر زندگی کی ابتداء کرنے والے تمام سالمات خلاء سے آئے تھے۔حالیہ برسوں کے دوران ہمیں مختلف شہابیوں سے زندگی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والے سالمات، جیسے کہ سائنائیڈ، رائبوز اور امائنو ایسڈز تک مل چکے ہیں۔ البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی شہابِ ثاقب سے پروٹین ملنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ امائنو ایسڈز کا شمار ان سالمات (مالیکیولز) میں ہوتا ہے جو آپس میں جڑ کر کسی پروٹین کی تشکیل کرتے ہیں۔ایسفر 086 (Acfer 086) نامی یہ شہابِ ثاقب 1990ء میں الجزائر کے ایک صحرائی مقام سے دریافت ہوا تھا۔ ماضی میں اس پر کی گئی تحقیق سے اس میں مختلف نامیاتی سالمات (آرگینک مالیکیولز) دریافت ہوچکے ہیں۔گزشتہ برس امریکا کی کمپنی ’’پی ایل ای ایکس کارپوریشن‘‘ کے سائنس دانوں نے جدید ترین کمیتی طیف پیمائی (ماس اسپیکٹرو سکوپی) کی مدد سے اس کا ایک بار پھر جائزہ لیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ اس میں ’’گلائسین‘‘ نامی ایک امائنو ایسڈ موجود ہے جو آئرن اور لیتھیم وغیرہ جیسے دیگر عناصر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ گلائسین امائنو ایسڈ الگ تھلگ حالت میں نہیں بلکہ یہ ایک پروٹین کا حصہ ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی شہابِ ثاقب میں پروٹین سمیت کسی بھی نامیاتی سالمے کی موجودگی بجائے خود خلاء میں زندگی کا ثبوت نہیں لیکن اس سے یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ نہ صرف زمین بلکہ کسی دوسرے سیارے پر بھی، موافق حالات کے تحت ان ہی سالموں کے آپس میں ملنے اور مخصوص انداز سے ترتیب پانے کے نتیجے میں زندگی کی ابتداء ہوئی، جو ارتقائی منزلیں طے کرتے کرتےبالآخر پیچیدہ اور ذہین مخلوقات میں تبدیل ہوگئی۔حیاتیات (بائیالوجی) میں بالخصوص ارتقاء کا اہم ترین معمہ یہ ہے کہ زندگی کی بنیادی خصوصیات رکھنے والا (یعنی اپنی نقلیں خود بنانے کے قابل) اوّلین سالمہ کیا تھا اور وہ کیسے وجود میں آیا؟ اسی تسلسل میں دوسرا سوال یہ ہے کہ آخر ایسے سالمات کس طرح ارتقاء پذیر ہو کر اس قابل ہوئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک خلیہ (یک خلوی جاندار) بنا سکیں؟یہ دریافتیں ان بڑے سوالوں کو حل کرنے میں ہماری خاصی مدد کرسکتی ہیں۔دریں اثناء وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈرونز کی ٹیکنالوجی بھی جدید تر ہوتی جارہی ہے۔ آج ایسے ڈرونز موجود ہیں جو روشنی کے علاوہ انفرا ریڈ شعاعوں کی مدد سے بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید وہ دن دور نہیں کہ جب ڈرونز بھی چمگادڑوں کی طرح خاص آوازوں کے ذریعے اپنے ارد گرد کا ماحول ’’دیکھ‘‘ سکیں گے اور آواز ہی سے رہنمائی بھی حاصل کرسکیں گے۔امریکا کی پرڈُو یونیورسٹی میں ریاضی، طبیعیات (فزکس) اور مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے ایک ایسا تجرباتی نظام تیار کرلیا گیا ہے جو چار مائیکرو فونز اور ایک عدد اسپیکر کے ذریعے، صرف آواز کی مدد سے، اپنے ارد گرد کے پورے ماحول کی تصویر کشی کرسکتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ یہ نظام ’’آواز سے تصویر‘‘ بناتا ہے۔واضح رہے کہ چمگادڑیں پرواز کے دوران اپنے منہ سے خاص طرح کی آوازیں نکالتی ہیں جن کی فریکوئنسی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ البتہ یہی آوازیں جب آس پاس کی چیزوں سے ٹکرا کر چمگادڑ کے کانوں تک پہنچتی ہیں تو چمگادڑ کا دماغ فوراً ان کی مدد سے ارد گرد کے ماحول کا پورا منظر بنا لیتا ہے۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ چمگادڑیں ’’آواز کے ذریعے دیکھتی‘‘ ہیں۔پرڈُو یونیورسٹی میں تیار کیا گیا یہ نظام، جس کی تفصیلات ’’ایس آئی اے ایم جرنل آن اپلائیڈ الجبرا اینڈ جیومیٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں، اپنی موجودہ حالت میں صرف ساکن رہتے ہوئے ہی آواز کے ذریعے اپنے ارد گرد ماحول کی منظر کشی کرسکتا ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے دورانِ پرواز بھی کام کے قابل بنایا جائے گا۔توقع ہے کہ مزید بہتر اور پختہ ہوجانے کے بعد یہ نظام فضا میں پرواز کرنے والے ڈرونز کے علاوہ زیرِ آب تیرنے والے ڈرونز اور خودکار گاڑیوں تک کی رہنمائی میں ہماری مدد کرسکے گا اور اُن جگہوں پر بھی ہمارے کام آسکے گا جہاں رہنمائی کے موجودہ و روایتی ذرائع ہمارے لیے ناکارہ ہوجاتے ہیں۔