عظمیٰ ویب ڈیسک
سری نگر/ لال قلعہ کے قریب پیش آئے خوفناک کار دھماکے کی تحقیقات میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو ایک اہم پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔ ایجنسی نے اس خودکش حملے میں ملوث مشتبہ سازشی اور کار کے رجسٹرڈ مالک عامر رشید علی کو دہلی سے گرفتار کرلیا ہے۔
این آئی اے نے دہلی پولیس سے کیس کی ذمہ داری سنبھالنے کے فوراً بعد بڑے پیمانے پر تفتیش کا دائرہ وسیع کیا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق عامر رشید علی، جو پانپور کے سامبورہ علاقے کا رہنے والا ہے، اس دہشت گردانہ سازش میں خودکش بمبار عمرالنبی کے ساتھ شریک تھا۔ ایجنسی نے فارنسک تحقیقات کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دھماکے کے وقت گاڑی چلانے والا شخص عمرالنبی ہی تھا، جو پلوامہ کا رہائشی اور الفلاح یونیورسٹی فریدآباد میں جنرل میڈیسن ڈپارٹمنٹ کا اسسٹنٹ پروفیسر تھا۔
تحقیقات کے مطابق عامر رشید علی خصوصی طور پر دہلی آیا تھا تاکہ وہ اس گاڑی کی خریداری میں مدد فراہم کر سکے جسے بعد میں خود کش حملے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ این آئی اے کے مطابق گاڑی اسی مقصد کے لیے خریدی گئی تھی اور دونوں ملزمان نے منظم طریقے سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
تحقیقاتی ایجنسی نے عمرالنبی کی ملکیت سے ایک اور گاڑی بھی برآمد کی ہے جسے فی الحال تکنیکی اور فارنسک جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ دوسری گاڑی سے بھی اہم سراغ ملنے کی توقع ہے، جو اس پورے دہشت گرد نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
عامر رشید علی کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب این آئی اے نے دہلی میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی۔ اب تک تحقیقات میں 73 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں، جن میں دھماکے کے زخمی بھی شامل ہیں۔ ان بیانات نے ایجنسی کو حملے کی ٹائم لائن، سازشی کرداروں اور ان کے روابط کے متعلق اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
این آئی اے نے بتایا کہ کارروائی میں دہلی پولیس، جموں و کشمیر پولیس، ہریانہ پولیس، یوپی پولیس سمیت دیگر خفیہ و سکیورٹی اداروں نے قریبی تعاون فراہم کیا۔ ایجنسی نے کہا کہ یہ کارروائی بین الریاستی سطح پر انتہائی سنجیدگی سے جاری ہے، کیونکہ دھماکے کی نوعیت اور اس کی تیاری اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک سرگرم تھا۔
این آئی اے کے مطابق تحقیقات کا اگلا مرحلہ ان تمام روابط اور معاونین تک پہنچنے پر مرکوز ہے جنہوں نے عمرالنبی اور عامر رشید کی کسی بھی طرح مدد کی یا حملے کی سازش سے باخبر تھے۔ ایجنسی نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ حملے کے پیچھے ایک بڑی اور گہری سازش کارفرما ہو سکتی ہے، جسے پوری طرح بے نقاب کرنے کے لیے تکنیکی، فارنسک اور انٹیلی جنس تحقیقات تیزی سے جاری ہیں۔
اب تک اکٹھا کیے گئے شواہد، گواہوں کے بیانات اور برآمد کردہ مواد نے این آئی اے کو حملے کی منصوبہ بندی کے کئی پہلوؤں تک پہنچا دیا ہے، تاہم ایجنسی کے مطابق مکمل تصویر ابھی سامنے نہیں آئی ہے۔ اس لیے مزید گرفتاریاں اور چھاپے متوقع ہیں۔
دہلی میں ہونے والا یہ کار بم حملہ گزشتہ کئی برسوں میں قومی دارالحکومت میں ہونے والا سب سے سنگین دہشت گردانہ واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حملے کے بعد مرکزی حکومت نے نہ صرف دہلی بلکہ ملک بھر میں حساس مقامات پر سیکیورٹی بڑھانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ خفیہ ایجنسیاں حملے کے ممکنہ بیرونی روابط کی بھی جانچ کر رہی ہیں۔
این آئی اے کا کہنا ہے کہ کیس زیر نمبر21 میں تفتیش پوری قوت سے جاری ہے اور ہر ممکن زاویہ کھنگالا جا رہا ہے۔ ایجنسی نے یقین دلایا کہ اس دہشت گردانہ کاروائی میں ملوث ہر شخص کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
لال قلعہ کار بم دھماکہ: این آئی اے کی بڑی کامیابی، خودکش حملہ آور کا ساتھی دہلی سے گرفتار