سائمہ مقبول
دنیا کے شور سے تنگ آ کر، وہ ایک دن سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا۔ شہر کے شور، چہروں کی خودغرضی اور لفظوں کی منافقت سب سے دُور ہونے کے لئے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک جنگل میں جا بسے گا۔اُسے لگا کہ وہاں، درختوں کی چھاؤں میں،چڑیوں کی آواز اور ہوا کے لمس سے شاید دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ شاید زخم بھول جائیں، شاید ماضی اپنی جڑوں سمیت کٹ جائے۔وہ چلتا گیا، میلوں تک پگڈنڈیوں کے سناٹے میں اُس کے قدموں کی چاپ ایسے گونجتی جیسے کوئی پرانا دکھ پھر جاگ اٹھا ہو۔آخر وہ ایک سنسان جگہ پہنچا جہاں نہ کوئی انسان تھا، نہ کوئی بستی۔ صرف درخت، ہوا اور اُس کی تنہائی۔
اُس نے گہری سانس لی،یوں محسوس ہوا جیسے دنیا کا بوجھ کندھوں سے اتر گیا ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحےایک خاموش سا درد اُس کے دل سے اُبھر کر آنکھوں تک آ گیا۔ وہ سمجھ نہ سکا کیا واقعی وہ اکیلا ہو گیا ہے؟ یا اُس کے اندر جو ہجوم بسا تھا،وہ اب زیادہ بلند آواز میں بولنے لگا ہے؟
درختوں کے بیچ بیٹھے، اُس نے آنکھیں بند کیں اورسوچا — ”اب کوئی یاد نہیں آئے گی۔“
مگر دل نے دھیرے سے کہا:
”یادیں کبھی راستہ نہیں بھولتیں۔“ہوا چلنے لگی۔
پتوں کی سرسراہٹ میں اُسے کچھ سرگوشیاں سنائی دیں
جیسے کوئی کہہ رہا ہو،”زخم وقت سے نہیں، احساس سے بھرتے ہیںاور تُو احساس سے بھاگ آیا ہے۔“
اُس نے سر جھکا لیا۔اُسے لگا، جنگل بھی اُس کا حال جانتا ہے۔ہر درخت جیسے اُس کے اندر کے درد کا گواہ ہو۔
رات ہوئی۔چاند بادلوں میں چھپ گیا۔ دور سے ایک الو کی آواز آئی، ایسی آواز جیسے تنہائی خود بول پڑی ہو۔
اُس نے آگ جلائی ،مگر آگ کی روشنی میں ا ُس کا سایہ لمبا ہوتا گیابالکل اُس کے ماضی کی طرح، جو پیچھا نہیں چھوڑتا۔وہ سوچنے لگا
”میں تو یہاں اس لئے آیا تھا کہ غم بھول جاؤں… پھر کیوں ہر خاموشی میں وہی لمحے، وہی غلطیاں…
کیا ماضی سے بھاگنا ممکن ہے؟“پاس کے درخت کے تنے پر اُس نے اپنا ہاتھ رکھا۔ زخم کے نشان جیسے لکڑی پر بھی کندہ ہوں۔ اچانک اُس نے محسوس کیادرخت کا چھلکا بھی زخمی ہے۔اُسے ہر لکیر جیسے اپنی کہانی سنا رہی ہو۔اُسے احساس ہوا کہ انسان جہاں بھی جائے اپنے زخم ساتھ لے جاتا ہے۔ وہ دل کے اندر چھپے رہتے ہیں اور ہر تنہائی میں خود بول اٹھتے ہیں۔صبح ہوئی۔
پرندے چہکنے لگے، سورج درختوں کے پیچھے سے جھانکنے لگا۔وہ اٹھا، دھیرے سے مسکرایا۔
ایک تھکی ہوئی، ہاری ہوئی مسکراہٹ۔
اب وہ جان چکا تھا: غم کو بھولنے کا کوئی جنگل نہیں ہوتا، درد کو دفنانے کی کوئی زمین نہیں ہوتی۔ زخم وقت کے ساتھ سو جاتے ہیں مگر مر نہیں جاتے۔ وہ واپس چل پڑا شہر کی طرف نہیں، خود کی طرف۔
���
لولاب کپوارہ ، کشمیر