زیارت ِ مقّدسہ
شہباز رشید بہورو
بندہ عاصی ندامت اور شرمساری کے ساتھ کائنات کی مقدس ترین جگہ پر حاضر ہونے کے لئے باب شاہ عبدالعزیز سے گذرتا ہوا مطافِ پاک میں طائفین (طواف کرنے والے)کے جم غفیر میں غائب ہوتا ہے ،ہر طرف سے تلبیہ،تکبیرات وتسبیحات اور دعاؤں سے سرایت کیا ہوا ایک بارعب لیکن باشرف منظر اور تعظیم وتکریم اور تقدیس وتحریم کی اعلیٰ صورت میں بیت اللہ نظر آتا ہے۔لاکھوں لوگوں کے ہجوم میں بھی ایک با رعب اور احترام کی فضا میں چھپی خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔دل ہی دل میں ندامت کا احساس اور ذہن میں یہ سوچ چھائی ہوئی تھی کہ اس مقدس ترین جگہ پر ہم جیسے گناہگاروں کا کوئی مقام نہیں ۔اس لئے مایوسی کی کیفیت طاری ہونے کو ہی ہوتی تھی کہ قرآن مجید کی یہ ایت لاتقنطو من رحمت اللہ امید کی کرن کے طور پر میرے لئے بند دروازے کھولنے کا کام کرتی ۔روح مسلسل ایک روحانی عزت کی تلاش میں بھکاری بن کر اپنے مادی وجود کے ہمراہ خدا کی رضا کی طالب بنی ہوئی تھی اور میں بیت اللہ کے گرد سوط (چکر )کاٹ رہا تھا ۔بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ اس مقدس گھر میں عزت صرف ان خوش نصیبوں کو حاصل ہے جو روحانی طور پاک و مطہر ہوں ،جن کی روحانی تطہیر و نفاست کایہ عالم ہو کہ سوء اخلاق اور سوء اعمال کی آمیزش سے پاک ہوں ۔بیت اللہ میں بل الانسان علی ٰ نفسہ بصیرۃ کی عملی تصویر ہر انسان کے سامنے بے نقاب ہوتی ہے اور ہر شخص کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کا کیا مقام ہے ۔کسی ملک کا صدر یا بادشاہ بھی اگر پورے پروٹوکال کے ساتھ وہاں حاضر ہوتا ہے اسے بھی اس ظاہری عزت کے مقابلے میں روحانی تعظیم کی تلاش ہوتی ہے اور وہ بھی اس ملکوتی عزت حاصل کرنے کے لئے تڑپتا ہے ۔اگر کسی صدر یا بادشاہ کا استقبال امام کعبہ بھی کرے اور اس کو اپنے اور حرم کے عملے کے حصار میں لے کر بیت اللہ کے اندر لے جائیں لیکن اس بادشاہ کو اس ظاہری عزت واحترام کے برعکس اس روحانی عزت کی تلاش رہتی ہے جو صرف کچھ خوش نصیبوں کے مقدر میں ہوتی ہے۔وہاں تو بس ہر شخص بھکاری بن کر ہر عمل انجام دیتا ہے اور اس خواہش کا اسیر ہوتا ہے کہ کاش میری یہ حاضری اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو ،کاش عالم ملکوت میں میرے چرچے ہوتے ،کاش فرشتوں کے ہاں میرا تذکرہ ہوتا ،کاش خدائے برتر آسمانوں میں میرا تذکرہ کرتا ۔ان باتوں کا احساس وہاں پر جاکے شاید ہر حاجی اور معتمر کو ہوتا ہوگا۔اس لئےحج اور عمرہ کا سفر کرنے سے پہلے اپنے گھر پر ہی توبہ کرنا چاہئے ،خوب رو رو کر استغفار کرنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ مجاہدہ، ریاضت کے ذریعے تزکیہ بھی کرنا چاہئے اور ہر وہ نیکی کا کام کرنا چاہئے جو اس کی روحانی تطہیر کے لئے مطلوب ہو ،تب وہاں جاکر کچھ اطمینان اور راحت حاصل ہوتی ہے ۔وہاں جا کر تو توبہ کرنا ہی ہے لیکن قبل اس کے کہ آپ کے قدم اس مبارک سرزمین میں داخل ہوں آپ اپنے آپ کو گھر ہی سے روحانی طور تیار رہیں۔یعنی بدن کے غسل کے ساتھ ساتھ روح کا بھی غسل کریں ۔
بیت اللہ کے سامنے جاکر اگر دل ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوا اور آنکھوں سے آنسوں کی بارش نہ ہوئی تو سمجھ لیجئے ابھی کچھ بھی حاصل نہ ہوپائے گا۔وہاں تو بس اللہ سے قساوت قلبی دور ہونے کی دعاکریں اور ایسی آنکھیں خدا سے دعا میں طلب کریں جو اس کے خوف سے اشک بار ہوں ،دعا کا ایک ایک لفظ قلب کے اندرون میں اس کےمرکز میں تخلیق کرکے ،دل کی دیواروں کو چیرتے ہوئے ،سینے کے قفس کو توڑتے ہوئے اور آنسؤں کی نمی سے ترکرتے ہوئے اللہ کے حضور رکھیں، تب جاکر کوئی بات بننے کا امکان رہتا ہے۔نہ زور زور کا چیخنے اور چلانے سے مطلوب و مقصود حاصل ہو پاتا ہے اور نہ ہی اللہ اپنے بندے سے سخت دل اور خشک آنکھیں چاہتا ہے ۔اللہ کو معلوم ہے کہ میرا بندہ یہاں کس نیت سے آیا ہے ۔کیا یہ بندہ ہدایت اور آخرت کی کامیابی کے لئے آیا ہے یا صرف دنیاوی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لئے دعائیں مانگنے کے لئے آیا ہے ۔ہر حاجی اور معتمر کو اپنے گھر ہی میں نیت درست کر لینی چاہئے کہ وہاں جا کر پہلے ہدایت طلب کروں اور باقی حاجات کو ثانوی درجے پر رکھ لوں ۔اگر دل میں دنیا ہی کی طلب ہو اور وہاں جاکر اگرچہ آنسوں بہا بہا کربھی صرف دنیا مانگ لی یا دنیا کو مقدم رکھا تو اللہ کے ہاں اس بندے کا وہ مقام نہیں جو اس کی روحانی اقبال و بلندی کے لئے مقصود ہے ۔
بیت اللہ کے قرب میں نماز مغرب کی صف میں بیٹھ کر اللہ کے اس مقدس گھر پر نگاہیں ٹکتی تو روحانی طور ایک ہلچل محسوس ہوتی کہ بس فرشتے آاور جارہے ہیں ،عبادت میں مصروف اور بیت اللہ کے روحانی انتظامات کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔اللہ کے اس گھر کی شان ہی ایسی نرالی ہے کہ ہر زائر کے لئے اس کا دیدار گویا اس کی معراج ہے ۔انسان محسوس کرتا ہے کہ جو کچھ مانگوں وہ ضرور عطا کیا جائے گا ۔جو کچھ نگاہ میں بس گیا بس وہی زندگی کی سب سے بڑی ایچیومنٹ ہے ۔حرم پاک میں عشق ومحبت اور معرفت والفت کے وہ سب صوفیانہ منازل انسان طے کرتا ہے جو اس کی روحانی پختگی کے لئے ضروری ہیں ۔
بیت اللہ کے ایک ایک حصے کو چھونا توحید کے علمبرداروں کے لئے یقیناً سکون قلب و روح حاصل کرنے کا ایسا روحانی توشہ بنتا ہے جس سے اس کے بعد جب چاہئیں اس کا اثر محسوس کر سکتے ہیں ۔رکن یمانی،حجراسود،حطیم پاک اور مقام ابراھیم بندہ عاصی کے لئے ایسے متبرک مقامات ہیں کہ بس انہیں دیکھ کر اور چھو کر آنسوں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔حطیم پاک کی دیوار سے لپٹ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک مضبوط حلقہ باندھ لیا ہے اور اپنے رب سے بخشش کروانے کی ضد پر اڑ ا ہوں ۔کعبہ کی دیوار سے لپٹ کر ہر طویل دعا مانگنے کے بعد بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کچھ بھی نہیں مانگا ہے ۔
کعبہ سامنے ہے اور مطاف میں طواف کرتے ہوئے یا کہیں ٹھہر کر دعا کرتے ہوئے سن شعور سے لیکر اب تک کا ہر عمل یاد آتا ہے ۔ندامت اور شرمساری کی کیفیت برابر جاری رہتی ہے ۔ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے رہ جاتے ہیں ۔آنسوں بہتے بہتے آنکھوں کو چشمے کامقام دیتے ہیںاور آہ پہ آہ انسان کو اپنی بندگی کا احساس دلاتے ہیں ۔خلق کے سمندر میں حطیم پاک کے اندر میزاب رحمت کے نیچے نماز پڑھنے کی تمنا افزوں ہوتی ہے پھر پشت سے آواز آتی ہے ہمیں بھی حطیم پاک کو چھونے اور دیوار سے لپٹ کر دعامانگنے کاموقع دیں ۔بندہ ہٹتا ہے کہ پیچھے ہٹتے ہی نگاہ کعبہ کے ایک کونے پر پڑتی ہے جہاں لوگ ایک پتھر کو چھونے اور بوسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔لوگ وہاں روتے ہوئے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں ۔خواتین کی دعائیں اور آہ دلوں کو چیردینے والی ہوتی ہیں ۔ایسا رش ہوتا ہے کہ وہاں قریب جانے سے انسان خوف کھاتا ہے کہ کہیں پس نہ جاوں ۔اس کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں ۔بہت کوشش کرنے کے بعد رکن یمانی کا بوسہ لینے میں کامیاب ہوتا ہوں ۔(جاری)