یوم اطفال
غلام قادر جیلانی
بچے محض مستقبل ہی نہیں، بلکہ قوم کا زندہ اور متحرک سرمایہ بھی ہیں۔ یہی وہ ننھی کلیاں ہیں جن سے کسی بھی ملک کا مستقبل سنورتا اور مہکتا ہے۔ جس گھر میں ان کی معصوم ہنسی گونجتی ہے، وہ گھر رونق کا مرکز بن جاتا ہے، ورنہ ایک سنسان ویرانہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ معصوم روحیں ہی بڑوں کی جینے کی وجہ اور دلی خوشی ہیں، اور یہی قوموں کی اصل پہچان ہیں۔ لہٰذا، قوم اور ملک کی پائیدار کامیابی کے لیے یہ اولین اور اخلاقی ضرورت ہے کہ ان کے تمام حقوق اور بنیادی ضروریات کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے۔
بقول بشیر بدر ؎
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
بھارت میں قومی یومِ اطفال(جسے عام طور پر بال دیوس بھی کہا جاتا ہے) ہر سال آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، پنڈت جواہر لعل نہرو کی یومِ پیدائش کے موقع پر پورے ملک میں جوش و خروش اور لگن کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو کی پیدائش 14نومبر 1889 کو الہ آباد (اتر پردیش) میں ہوئی ۔ نہرو جی کو بچوں سے ایک خاص اور والہانہ لگاؤ تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ شامل ہو کر ان کی معصوم خوشیوں میں شریک ہوتے تھے بچے بھی انہیں بہت زیادہ چاہتے اور پیار کرتے تھے، اور اسی محبت کی بنا پر انہیں پیار سے چاچا نہرو کہہ کر پکارتے تھے۔
بچوں کے ساتھ ان کی اسی گہری دلچسپی اور خاص لگاؤ کی وجہ سے، ان کی وفات (27 مئی 1964) کے بعد، یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کی یومِ پیدائش کو بھارت میں یومِ اطفال کے طور پر منایا جائے گا۔اس سلسلے میں، پارلیمنٹ سے ایک باضابطہ قرارداد (Resolution) منظور کرائی گئی جس میں یہ رسمی اعلان کیا گیا کہ بھارت میں ہر سال 14 نومبر کو قومی یومِ اطفال کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ دن بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کی یادگار ہے
اس سال، بھارت میں قومی یومِ اطفال کا مرکزی موضوع (Theme) ’’ہر بچے کے لیے، ہر حق‘‘ (For Every Child, Every Right) رکھا گیا ہے۔یہ تھیم نہ صرف بچوں کے حقوق کی جامعیت کو بیان کرتا ہے، بلکہ ان کی عالمگیریت (Universality) پر بھی زور دیتا ہے، اس مقدس مقصد کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بغیر کسی امتیاز (رنگ، نسل، مذہب یا علاقے کے فرق کے) دنیا کے ہر بچے کو اس کے تمام بنیادی حقوق حتمی طور پر دستیاب ہونے چاہئیں، جن میں معیاری تعلیم، صحت کی سہولیات، مناسب غذائیت، اور مکمل تحفظ شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کی پاسداری صرف ایک قانونی تقاضا نہیں، بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اس سے بڑ کر قومی یومِ اطفال ہمیں اس بات کی پر زور یاد دہانی کراتا ہے کہ بچوں کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنایا جائے اور تمام تعلیمی سہولیات بغیر کسی رکاوٹ کے مہیا کی جائیں۔ تاہم، حقائق کی دنیا اس کے برعکس ہے۔2025-2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ابھی بھی 11 لاکھ 70 ہزار بچے اسکول سے دور تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔10 لاکھ سے زائد بچے اب بھی بچہ مزدوری (Child Labor) کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام میں ملوث ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے وعدے ابھی تک زمینی سطح پر پورے نہیں ہو پائے ہیں۔
اگرچہ قانونی طور پر بچوں کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری کے لیے بھارت میں جامع قوانین موجود ہیں، جیسے کہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2015، POCSO ایکٹ 2012، چائلڈ لیبر ایکٹ 1986 پروہیبشن آف چائلڈ میرج ایکٹ 2006اور رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ (RTE) 2009، مگر اس کے باوجود بچوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق 2005 سے 2023 کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات میں 10گنا اضافہ ہوا ہے، اور یہ تعداد ایک لاکھ 77ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ یونیسیف (UNICEF) کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں نابالغ بچوں کی شادیوں کی شرح 27 فیصد ہے، اس لئے بچوں کے تحفظ اور بنیادی حقوق کی پاسداری کے قوانین کا زمینی سطح پر پُر اثر اطلاق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بچے ملک کی کامیابی کے ضامن، قوم کا مستقبل اور آنے والی قیادت ہیں۔ لہٰذا، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و جسمانی صحت اور تفریح کا خیال رکھنا بھی لازمی ہے۔حکومت نے طبی سہولیات کے لیے اگرچہ بچوں کے لیے مخصوص اسپتال اور ادویات کی سہولتیں رکھی ہیں، لیکن بہت سے علاقوں کو یہ سہولیات بہم نہیں کرائی گئی ہیں۔ ، بچوں کا بچپن حسین بنانےکے لیے کھیلوں کے میدان، خوبصورت پارکیں اور کھیلنے کا معیاری ساز و سامان بھی انتہائی ضروری ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کل بچوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالا جاتا ہے، یا انہیں موبائل فون کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جبکہ والدین کے پاس ان کے ساتھ وقت گزارنے کی فرصت نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں بچے غلط سرگرمیوں میں ملوث ہو کر بری عادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئیں، کیونکہ یہ ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے، جبکہ سختی اور لاپرواہی انہیں باغی بنا دیتا ہے بچوں کے سوالات کا صبر و تحمل سے جواب دیں۔ انہیں اپنی رائے دینے کا موقع فراہم کریں اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کریں، تاکہ ان کی شخصیت نکھرے اور ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
بچوں کے حقوق کی جدوجہد میں عظیم شخصیات نے لازوال اور بے مثال کام کیا ہے، جس کی روشنی میں ہمیں اپنے فرائض کا احساس ہوتا ہے۔ بھارت کے عظیم رہنما کلاش ستیارتھی (Kailash Satyarthi) کو اسی عظیم کام کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنی تنظیم بچپن بچاؤ آندولن کے ذریعے لگ بھگ ایک لاکھ بچوں کو غلامی اور بچہ مزدوری سے آزاد کرایا۔ عالمی سطح پر بھی انہوں نے ‘گلوبل مارچ اگینسٹ چائلڈ لیبر جیسی مؤثر پہلیں شروع کیں اور انڈین چائلڈ لیبر ایکٹ کی بحالی اور مؤثر اطلاق کے علاوہ پروگرام گوئڈ ویو ٹو کمبیٹ چائلڈ لیبر ان سپلائی چینز جیسے عملی اقدامات کی بنیاد رکھی۔ملالہ یوسفزئی (Malala Yousafzai) وہ نڈر آواز ہیں جنہیں کم عمری میں ہی نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا انہوں نے نے لڑکیوں کی تعلیم کے میدان میں ایک تاریخی اور اہم کردار ادا کیا ہے ۔
یومِ اطفال کے خصوصی موقع پر، ہمیں یہ مضبوط عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں شامل تمام مفلوک الحال بچے، جن میں معذور، غریب، ناداراور یتیم بچے شامل ہیں، تک نہ صرف تمام بنیادی سہولیات پہنچائی جائیں ، بلکہ ان کے تمام حقوق کا مکمل تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔انہیں معاشرے کے دھارے سے الگ تھلگ رکھنے کے بجائے پورے وقار کے ساتھ اپنی خوشیوں میں شامل کیا جائے۔یہی وہ حقیقی اقدام ہے جس سے یوم اطفال منانے کا اصل حق ادا ہو سکتا ہے اور اسی میں ہمارے قوم کا فخر اور معیار مضمر ہے ۔
[email protected]