اِکز اِقبال
’’دولت جب ضمیر سے آزاد ہو جائے تو عبادت بھی تجارت بن جاتی ہےاور جب ایمان معیشت میں شامل ہو جائے تو تجارت بھی عبادت بن جاتی ہے۔‘‘
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں چمک دمک کے پیچھے اندھیرے بڑھ رہے ہیں۔ زمین سونا اگل رہی ہے، مگر دل خالی ہیں۔ فیکٹریاں چل رہی ہیں مگر ضمیر بند ہیں۔انسان نے چاند پر قدم رکھا، مگر اپنے اندر کی تاریکی کو روشنی نہ دے سکا۔ یہی وہ تضاد ہے جسے قرآن انسان کے شعور کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ قرآن محض عبادتوں کی کتاب نہیں، بلکہ زندگی کا منشور ہے —۔ایسا منشور جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان کے بغیر معیشت، ترقی نہیں تباہی ہے۔ یہ کتاب ہمیں صرف نماز نہیں سکھاتی، بلکہ نیت کی پاکیزگی، انصاف کی قوت، اور تجارت کی دیانت سکھاتی ہے۔
۲۔ قرآن کا معاشی فلسفہ :
قرآن معیشت کی بنیاد ایک عظیم اصول پر رکھتا ہے:’’ کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا ہے۔‘‘(البقرۃ: 284)۔انسان مالک نہیں، امین ہے۔ دولت انعام نہیں، امتحان ہے۔یہ وہ نکتہ ہے جسے دنیا نے بھلا دیا۔
آج کی معیشت میں سوال یہ ہے کہ’’تمہارے پاس کتنا ہے؟‘‘جبکہ قرآن پوچھتا ہے: ’’تم نے کیسے کمایا؟‘‘قرآن سود سے منع کر کے انسان کو غلامی سے بچاتا ہے،زکٰوۃ کا حکم دے کر معاشرے میں انصاف اور توازن قائم کرتا ہے۔قرآنی معیشت گردش کی ہے، جمع کرنے کی نہیں۔ تعاون کی ہے، استحصال کی نہیں۔ شکر کی ہے، لالچ کی نہیں۔
جدید عالمی معیشت کا سب سے بڑا بحران ’’عدمِ توازن‘‘ ہے۔زمین محدود ہے مگر لالچ لامحدود۔ ترقی کا معیار صرف نفع بن گیا ہے، چاہے وہ فریب سے ہو یا تباہی سے۔قرآن نے اسی خطرے کی نشاندہی کی:
’’وَوَضَعَ الْمِیزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ‘‘ (الرحمٰن: 7–8)جب توازن ٹوٹتا ہے تو صرف قیمتیں نہیں بڑھتیں —۔ضمیر کی قیمت بھی گر جاتی ہے۔ مہنگائی، کرپشن، ناانصافی — یہ سب اقتصادی نہیں، روحانی بحران ہیں۔قرآن انہیں ’’فساد فی الارض‘‘ کہتا ہے اور یہی فساد آج عالمی منڈیوں سے لے کر ہمارے گھروں تک پھیل چکا ہے۔اسلام میں کام عبادت ہے۔رسولِ اکرم ؐ خود تاجر تھے۔
آپؐ نے فرمایا:’’ایمان دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘ یہ دراصل اسلام کے معاشی وژن کا اعلان ہے — کہ محنت ایمان ہے، دیانت عبادت ہے، اور کمائی اخلاق کی تصویر۔میں جب اپنی رزقِ حلال کی ایک چھوٹی مگر سچی تحریک Rizq Revolution کے مقصد پر غور کرتا ہوں تو قرآن کا معاشی فلسفہ گویا حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ رزق صرف کھانے کی چیز نہیں، بلکہ ایمان اور امانت کا رشتہ ہے۔
خالص غذا بیچنا ہمارے لیے محض نفع کا ذریعہ نہیں، بلکہ ذمہ داری اور عبادت ہے۔پاکیزگی ہمارے لیے کوئی تجارتی نعرہ نہیں — بلکہ ایک عہد ہے، ایک امانت ہے جس کا حساب خدا کے حضور دینا ہے۔
قرآن کے معاشی اصول:
تجارت میں دیانت اور ناپ تول میں انصاف ،نفع و نقصان میں شراکت کا اصول،زکٰوۃ و صدقہ کے ذریعے دولت کی گردش،حقیقی اثاثوں میں سرمایہ کاری، فرضی دولت میں نہیں،ماحول، فطرت اور معیشت کا توازن،قرآن ہمیں بازار سے بھاگنے کو نہیں کہتا —بلکہ بازار کو ایمان سے روشن کرنے کا حکم دیتا ہے۔
عالمگیریت نے منڈیاں تو جوڑ دیں مگر دل جدا کر دیے۔اب ضرورت ہے کہ ایمان کو بھی عالمگیر بنایا جائے۔یعنی پالیسی میں ضمیر، تجارت میں اخلاق، اور سرمایہ میں رحمت داخل کی جائے۔قرآن ہر کمائی سے سوال کرتا ہے:’’تم نے کتنا نہیں، کیسے کمایا؟‘‘،’’اور تمہاری دولت نے کس کو فائدہ دیا؟‘‘
دنیا کے لیے ترقی GDP ہے،قرآن کے نزدیک ترقی برکت ہے —،وہ غیر مرئی دولت جو ایمان، عدل اور خدمت سے پیدا ہوتی ہے۔میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم چھوٹے پیمانے پر بھی دیانت، صفائی اور خلوص کو اپنا لیں تو ہم عالمی معیشت کے اس بے ضمیر طوفان کے مقابلے میں اخلاق کا چراغ جلا سکتے ہیں۔یہ انقلاب فلسفے سے نہیں، ضمیر سے پیدا ہوگا۔
قرآن کہتا ہے: ’’اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود کو بدلنے کا ارادہ نہ کرے۔‘‘’’آسمان کو بلند کیا اور توازن قائم کیا تاکہ تم اس توازن میں زیادتی نہ کرو۔‘‘ (الرحمٰن: 7–8)۔ہم نے اس توازن کو بگاڑ دیا — دولت میں بھی، رشتوں میں بھی، نیتوں میں بھی۔ اب وقت ہے واپسی کا — غربت نہیں، مقصد کی طرف۔ دولت نہیں، دیانت کی طرف۔
اصل خوشحالی وہ نہیں جو بینک میں ہے، بلکہ وہ ہے جو دل میں سکون بن کر اترے۔ اگر انسانیت واقعی شفا چاہتی ہے،تو اسے معیشت کی اصلاح قرآن سے شروع کرنی ہوگی۔نفع سے پہلے نیت، کمائی سے پہلے کردار درست کرنا ہوگااور شاید یہی اصل انقلاب ہے —کہ ہم تجارت سے پہلے توبہ کریںاور دنیا کے بازار میں آخرت کی قیمت پہچانیں۔
آخری بات:دنیا کی معیشت شاید اعداد سے چلتی ہے، مگر انسان کی زندگی ایمان سے۔ جب تک ہم نفع کے بجائے نیت کو،دولت کے بجائے دیانت کو، اور ترقی کے بجائے توازن کو ترجیح نہیں دیں گے، ہم ترقی یافتہ ہو کر بھی گمراہ رہیں گے۔قرآن ہمیں بازار کے شور میں ضمیر کی آواز سننا سکھاتا ہے۔
یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ رزق صرف روزی نہیں — یہ رب کا رشتہ ہے۔ اور جب یہ رشتہ مضبوط ہو جائے تو دنیا کی ہر معیشت، ہر سود، ہر منڈی ایک سجدہ بن جاتی ہے — عدل ،شکر اور برکت کا۔
(کالم نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
(رابطہ۔7006857283)
[email protected]