رشید پروین ؔ سوپور
حرکت قلب یا دل کے دورے پڑنے سے ہر دور اور ہر زمانے میں اموات ہوتی رہی ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ،لیکن یہ واقعات بہت ہی کم ، شاذو نادر ہی ہوتے تھے اور دوئم یہ کہ اعداد و شمار اور ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حرکت قلب بند ہونے سے اکثر اموات سٹھ ستر برس کی عمر میں ہی زیادہ تر ہوتے رہے ہیں اور کبھی کبھار ہی کوئی واقع نوجوانوں اور جوانوں کا وقوع پذیر ہوا کرتا تھا۔ لیکن پچھلے کئی برس کے اعداد و شمار حیرت انگیز اور تعجب خیز بھی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ ہارٹ اٹیکس سے ہونے والی اموات میں نہ صرف برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کا نشانہ نوجوان اور جوان لوگ ہیں۔ اس پسِ منظر میں پچھلے ایک سال کے اعداد و شمار نہ صرف کرب ناک ہیں بلکہ زبردست الارمنگ بھی ہیں ) WHO) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جو 15؍اکتوبر 2025کو منظر عام پر لائی گئی ، ہندوستان بھر میں ہارٹ اٹیکس کے اعداد و شمار حیران کُن طور پر الارمنگ اور اذیت ناک ہیں ، اس رپورٹ سے ظاہر ہورہا ہے کہ کہ ماضی کی بہ نسبت حال میں یہ بیماری زیادہ تر نوجوانوں اور جوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس کی وجہ سے یہ بیماری ان پھولوں کو نگل رہی ہے جو ابھی یا تو کھِلنے ہی والے تھے یا ابھی کلیوں کی صورت ہی گلستاں میں موجود تھیں۔ اس رپورٹ کے مطابق واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان بھر میں (c v c )سے مرنے والوں کی ریٹ ایک لاکھ مردوں میں 349اور عورتوں کی تعداد 255ہے اور ان اعداد و شمار میں سب سے خطر ناک اور پریشان کُن بات یہ ہے کہ ہارٹ اٹیکس سے ان مرنے والوں کی تعداد میں محض 53 یا اس سے بھی کم عمر کے لوگ رہے ہیں ، لیکن ان میں ایک بڑی تعداد جس سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا محض ۳ ۲برس تک کی عمر کے رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کے اوسط اعداد و شمار ہیں اور جہاں تک جموں کشمیر کا تعلق ہے ، ہماری تشویش ان سے بھی بڑی اور الارمنگ ہے ، دل کی بیماریوں نے جیسے اسی وادی گلپوش میں اپنے ڈھیرے جمالئے ہیں ، حالیہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق تما م ہارٹ سپیشلست اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر میں (c, v c)کی برق رفتاری خصو صاً تیس سے چالیس برس کے جوانوں کو اپنی ابدی گود میں سمو رہی ہے۔ اس بات کے شواہد اور حقائق حال ہی میں انڈین ہارٹ جرنل ، میں دل کی بیماریوں پر شائع ایک رپورٹ سے واضح ہوجاتے ہیں جو بہت زیادہ پریشان کُن ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ۵،۷ فیصد کشمیری صرف چالیس کی عمر میں coronary artery disease میں مبتلا ہورہے ہیں اور اسی کے ساتھ ایک اور سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر پانچ ہارٹ اٹیکس کے بیماروں میں ایک 45برس کی عمر کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اور سروے سے پتہ چلا ہے کہ کشمیر میں امسال یعنی 2025میں ہارٹ اٹیکس کی ریٹ بہت زیادہ اور اپنی بلند سطح پر رہی ہے ، ڈاکٹرس کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ تمام اموات میں 30فیصد فوت ہونے والوں کی وجوہات کسی نہ کسی طرح دل کی بیماری سے جڑی ہوتی ہے ، یہ بھی سپیشلسٹوںکا ماننا ہے کہ موسم سرما میں یہ تعداد دوگنی ہوجاتی ہے جب کہ موسم گرمامیں شرح فیصد نصف رہ جاتی ہے ، ہمارے بڑے ہسپتالوں نے جو رپورٹ اس پر شائع کی ہے اس کے مطابق (cardia emergencies)یومیہ تیس تک رپورٹ ہورہی ہیں اور یہی تعداد گرمیوں میں بارہ سے پندرہ تک رہ جاتی ہے ظاہر ہے، موسم سرما اس میں ایک اہم اور کلیدی رول نبھا رہا ہے۔ SKIMS))کے سینئر ڈا کٹر س کے مطابق ہر ہفتے ہم نئے دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو دیکھتے ہیں جن کی عمر صرف ۴۰ برس سے ذرا اوپر ہوتی ہے ۔ یہ سب رپورٹس اور سروے ہمیں بہر حال بتانے کے لئے کافی ہیں کہ کشمیر دل کی بیماریوں کا مسکن بن چکا ہے اور ماضی میں جھانکنے ا ور اس طرح کی اموات کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے یہ انتہائی سنگین صورتحال ہے ، جس نے سارے معاشرے کی چولیں ہلا دی ہیں اور وہ لوگ یا ڈاکٹرس جو اس فیلڈ میں کام کر رہے ، اس مسلے کو انتہائی سنگین اور ہوشربا قرار دے رہے ہیں ، اگرچہ عام لوگ بھی اپنے آس پاس ان واقعات اور اموات کو دیکھ رہے ہیں لیکن وہ اپنے دکھ اور غم کا اظہار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ طبی معاملات اور جسم سے جڑے سنگین خطرات کو سمجھنے ہی سے قاصر ہوتے ہیں ، اور یہ ایک فطری تقاضا ہے ۔ ہمارے سینئیر ڈاکٹرس اور ماہرین جنہوں نے اس میدان میں اپنی عمریں کھپائی ہیں، دل کی ان بیماریوں کا برق رفتاری سے پھیلنے اور پنپنے کی بہت ساری وجوہات بتا رہے ہیں ، ان میں پہلے نمبر پر تمباکو نوشی کو قرار دیا جارہا ہے ، ایسا کہا جارہا ہے کہ کشمیر تمباکو نوشی میں سارے ہندوستان میں نمبر ون پر ہے ، اس بارے میں جو لیٹسٹ سروے ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ 38سے 56فیصد لوگ تمباکو نوشی کے عادی ہیں اور دیہی علاقوں میں یہ شرح فیصد 76تک پہنچ جاتی ہے اور گر یہ سروے درست ہے تو گویا کشمیر کی آبادی کے تین حصے اس عادت میں مبتلا ہیں۔ تمباکو نوشی بہر حال یہاں صدیوں سے رہی ہے اور اس رپورٹ کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ،کیونکہ بہر حال یہ ذمہ دار محکمے کراتے رہتے ہیں ، لیکن تمباکو نوشی کو چھوڑ کر اس گلش کا ہر گلاب زخم زخم ہے کیونکہ ہمیں تمباکو نوشی سے زیادہ مہیب اور انا کونڈا ڈرگس مافیا نے اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا ہے ۔ قائمہ کمیٹی برائے سماجی انصاف و عطائے اختیار، کمیٹی نے محتاط طریقے سے جموں و کشمیر میں ڈرگس پر سروے کے بعد اپنی رپورٹ کو کچھ برس پہلے ، حتمی شکل دے کر پیش کیاتھا ،اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر شاید کرپشن میں جہاں سر فہرست اپنا مقام بنا چکا ہے شاید اسی طرح منشیات کے استعمال میں بھی اسی مقام پر آچکا ہے۔ اگر یہ حال جموں و کشمیر کا ہے جہاں نہ تو بالی وڈ کی جھماکے دار روشنیاں ہیں اور نہ ہی میٹرو سٹییز کی ماڈرن چکا چوند ہے ،تو ہندوستان کے ان بڑے اور کثیر آباد شہروں کا حال کیا ہوگا اور کیا ہوسکتا ہے ،جہاں گلیمر ہی دکھائی دیتا ہے اور کچھ نہیں ؟ ، مجموعی طور پر اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر میں ۱۳ لاکھ پچاس ہزارسات سو ڈرگ ایڈکٹ ہیں ، جو 18سال کی عمر سے لے کر 75 سال کی عمر کے درمیان ہیں لیکن ان میں سب سے بڑی تعداد 18سے 27سال تک کے نوجوانوں کی ہے جس میں ایک بہت بڑی تعداد صنف نازک سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ 2018میں متوقع آبادی پر مبنی اعداد و شمار ہیں اور 2018سے لے کر اب تک زمینی سطح پر اس انا کونڈا نے کتنی بڑی تعداد کو نگل لیا ہوگا، اس کا ہم صرف اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔ معاملے کی سنگینی کا اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ا س رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ۱۰ برس سے ۱۷ برس کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد ایک لاکھ اٹھا سٹھ ہزار سات سو ہے ، ملک کی دوسری ریاستوں کا حال اس سے کچھ زیادہ ہی خراب یا انیس بیس کے فرق کے سات اسی طرح کا ہوگا ۔ دوسری سب سے بڑی وجہ جو ماہرین کے فہم و ادراک میں آجاتی ہے وہ ذہنی دباؤ ہے ، (میڈیسن سائنس فرنتیرز‘) کے ایک سروے کے مطابق ۵ ۴فیصد کشمیری کسی نہ کسی درجے کے نفسیاتی دباؤ سے جھوج رہے ہیں ، اور اس نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے سارا جسم ہی ایک طرح سے مفلوج ہوجاتا ، اس ذہنی دباؤ کو اپنے پسِ منظر میں بھی دیکھا گیا ہے کہ برسوں سے جاری سیاسی غیر یقینیت ، انتشار ، تشدد اور بیروز گاری ان امراض کے عوامل ہیں اور ان میں سب سے بڑا رول مستقبل کے اندیشوں سے متعلق ہے ،کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ نصف عمر دانشگاہوں میں گذارنے کے بعد بھی ہمارے نوجوان روز گار سے محروم رہتے ہیں، یہاں پڑھے لکھے اور ڈگری یافتہ نو جوانوں کے لئے اب حالات ایسے پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ ہر طالب علم کو نہ سہی پھر بھی ایک بڑی تعداد پہلے ہی سے محرو میوں اور مایوسیوں کا شکا رہتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ منشیات کا سہارالے کر اپنی زندگیوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا اپاہج بن کر زندہ رہتے ہیں ،اس مستقبل کی تاریکی نے معاشرے اور معاشرے سے وابسطہ تمام طبقات اور افراد کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر کھا ہے ، ماہرین کا ماننا ہے کہ’’ ذہنی تناؤ بڑھتا ہے تو سارا جسم اور اعصابی نظام غیر متوازن ہوجاتا ہے ‘‘بلڈ پریشر بڑھتا ہے اور آخر ’’دل ‘‘تھک کر دھڑکنا ہی بند کرتا ہے۔ ’’ صورہ کے ایک ہارٹ سپیشلسٹ کے مطابق جسم کو جب سکون نہیں ملتا تو ایک دن دل ہار مان لتا ہے ‘‘ تیسری بڑی وجہ ہارٹ اٹیکس کی جو بتائی جارہی ہے وہ چکنائی ، نمک اور سرخ گوشت کی زیادتی ہے جو دل کے نظام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ہمارے روائتی کھانے، فاسٹ فود اور پیک شدہ خوراکوں سے بدل چکے ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں میں موٹا پا اور دوسری کئی منفی تبدیلیاں آجاتی ہیں ، ذہنی صحت پر کا م ناگزیر ہے کیونکہ جب ذہن پُر سکون ہوگا تو جسم بھی محفوظ رہے گا ۔ یہ ماہرین کی متفقہ رائے ہے ، ، اور بھی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اس سٹریس، ذہنی تناؤ اور مایوسیوں کے پیچھے ’’سماجی بحران ‘‘ہے ، جس کے روپ ، غربت ، مستقبل کے اندھیرے ، مایوسی ، بیروز گاری جیسے اہم عوامل ہیں جنہیں ایڈرس کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اسلامی تعلیمات ان سب امراض کا علاج صرف تیں لفظوں میں سمو دیتی ہے لیکن ہم اس پر غور نہیں کرتے۔ پہلازینہ صبر ، دوسرا شکر اور تیسرا توکُل ہے۔ان تین زینون کے سفر کا اختتام نفس مطمینہ پر ہوتا ہے جہاں کوئی بھی سماجی بحران، مایوسیاں ، محرومیاں اور روز گار کے اندیشے معاشرے کے افراد کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اور نہ ہی پروان چڑھنے والی نسلیں ان بحرانوں سے خوف اور ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتی ہیں بلکہ وہ سب مل کر ایک صالح اور فلاحی معاشرے کی تشکیل اپنے ماحول ، اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں پر استوار کرنے کی مسلسل کو ششیں کرتے ہیں ۔
(رابطہ۔ 7006410532)