پرائیویٹ سکولوں کے برعکس مشنری سکولوں میں کسی کتب سیریز کی اجازت نہ ایڈمشن فیس کی وصولی
بال فرقانی
سرینگر //وادی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے جدید تعلیم کے نام پر رقوم بٹورنے کاجو گھناونا دھندہ شروع کیا ہے،انکے منتظمین کو یہاں دہائیوں سے قائم مشنری سکولوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔اس وقت وادی میں سرکاری سکولوں کے بعد مشنری سکول میں ہی بہترین تعلیم دی جاتی ہے اور ان سکولوں میںکوئی ایڈمشن فیس ہے نہیں لیا جاتا، عام پرائیویٹ سکولوں کے برعکس جہاں ایڈمشن فیس کے بغیر بچے کا داخلہ بالکل نا ممکن ہے۔مشنری سکولوں میں سالانہ فیس بہت زیادہ نہیں جو عام والدین ادا کرنے سے قاصر رہیں گے بلکہ ان سکولوں میں سالانہ فیس کے بعد سال بھر کیلئے الگ سے کوئی امتحانی فیس نہیں ہوتا،سال بھر میں ہونے والی تقریبات کیلئے کوئی الگ سے رقوم نہیں دینی پڑتی ہیں اور نہ پکنک وغیرہ کیلئے پیسے دینے پڑتے ہیں۔اسکے برعکس اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے پرائیویٹ سکول کے مالکان سال بھر والدین کو مختلف بہانوں سے لوٹے رہتے ہیں۔سب سے اہم بات سالانہ امتحانی نتائج کے بعد کتابوں کی خریداری کا معاملہ ہے۔مشنری سکول باضابطہ اور مکمل طور پر نئی قومی تعلیمی پالیسی پر عملدرآمد کررہے ہیں اور کسی بھی کلاس کے کسی بھی بچے کیلئے انتہائی مہنگی کوئی کیمبرج یا آکسفورڈ کتابوں کی سیریز لانے پر نہ مجبور کیا جاتا ہے اور نہ کسی مخصوص بک سیلر سے کتابیں خریدنے کا دھندہ کیا جاتا ہے جس طرح وادی کے تقریباً سبھی پرائیویٹ سکول ادارے کرتے ہیں۔اکثریتی فرقے کو بہتر تعلیم دینے کے نام پر وادی کے پرائیویٹ سکول ایک بہت بڑا مافیا بن گیا ہے جبکہ دوسری جانب مشنری سکولوں کا فوکس بہترین تعلیم کیساتھ ساتھ بچوں کی بہتر نشوونما پر مرکوز ہے۔ان مشنری سکولوں نے کشمیر میں مغربی طرز کا تعلیمی نظام متعارف کروا کر اہم کردار ادا کیا جس میں انگریزی، سائنس اور ریاضی جیسے مضامین شامل ہیں، جو روایتی طور پر نہیں پڑھائے جاتے تھے۔ انہوں نے باضابطہ، منظم اسکولنگ فراہم کی ،جسے جدید سمجھا جاتا تھا۔ حالانکہ بعض اوقات ثقافتی لحاظ سےانکے کسی طریقہ کار پر اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن مجموعی طور پر وادی میں کام کررہے مشنری سکولوں کے حوالے سے کبھی کوئی منفی طریقہ کار یا منفی طرفز عمل دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ یہ سکول کسی بھی اختلافی معاملے میں خود کو منسلک کرتے ہیں۔ بلکہ انکا محور صرف بہترین تعلیم دینا ہے اور وہ بھی سماج کے ہر ایک طبقہ کیلئے مساوی بنیاد پر،جس میں ہر کوئی اپنے بچے کو تعلیم سے آراستہ کرسکتا ہے۔اسی لئے ان سکولوں میں پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں
بچوں پر بہت کم خرچ پر تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔مشنری سکولوں نے کشمیر میں ایک جدید تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی ہے جس کے بعد کی تعلیمی پالیسیوں پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جموں و کشمیر کے کچھ مشہور مشنری سکولوں میں برن ہال، ٹنڈیل بسکو، ملنسن اور پریزنٹیشن کانونٹس سکول اور بارہمولہ میں سینٹ جوزف سکول شامل ہے۔جموں و کشمیر کا سب سے قدیم مشنری سکول ٹنڈیل بسکو سکول ہے، جس کی بنیاد 1880 میں رکھی گئی تھی۔ یہ قدیم ترین سکولوں میں سے ایک ہے۔