ایس معشوق احمد
مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو میں پیتا نہیں ہوں پلائی گئی ہے
جہاں بے خودی میں قدم لڑکھڑائے وہی راہ مجھ کو دکھائی گئی ہے
دنیاوالوں نے شکیل بدایونی کو شرابی سمجھا یا نہیں اس بات سے میں بے خبر ہوں لیکن ہمیں دنیا والے ہرگز کتے کا گوشت کھانے والے نہ سمجھے کیونکہ ہم نے کھایا نہیں ہے بلکہ ہمیں کھلایا گیا ہے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر اور بےخبری میں ہم نے کھایا ٹنوں اور منوں کے حساب سے بغیر اکتائے اور بغیر لجائے۔پیسوں کی لالچ نے انسان کو اتنا اندھا کیا ہے کہ اسے یہ تک دکھائی نہ دیا کہ میں لوگوں کو کیا کچھ کھلا رہا ہوں۔ہم نے بھی اندھوں کی طرح کھایا۔صاحبو جب ہمیں خبر ہوئی کہ ہم نے جو کھایا وہ کتے کا گوشت تھا، بلی کے گوشت سے بنے کباب تھے ،مردہ گھوڑے کی رانوں کو کاٹ کر ان کے بنے رستے ہمیں کھلائے گئے، ناپاک مردہ جانوروں کا گوشت ہمارے معدے تک پہنچایا گیا ہے تو یہ سن کر ہمیں ہرگز الٹی نہ آئی اور نہ متلی ہوئی۔ مرزا سے اس کیفیت کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے میاں ناپاک اور بدبودار کھانا کھانے سے ایک بار الٹی آتی ہے لگاتار،بے شمار اور بار بار کھایا جائے تو اس کی عادت پڑجاتی ہے پھر حرام ،حرام نہیں لگتا بلکہ ناپاک سے ناپاک کتے کا گوشت کھانے میں لذت اور مزہ آنے لگتا ہے۔مرزا کی سن لیں تو ہم نے پہلی بار کتے کا گوشت نہ کھایا گر ایسا ہوتا تو الٹی آگئی ہوتی لیکن ہم نے اس کے گوشت سے بنے انواع و اقسام کے ڈشز آڈر دے دے کر مزے سے کھائے جس سے ہماری خصلت دھیرے دھیرے بدلنے لگی اور معمولی سے معمولی بات پر بھی ہم ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کے لئے دوڑ پڑے۔اب صورتحال یہ ہے کہ کسی سے اختلاف کرنا تو دور کم تعریف کرنے پر بھی بعض حضرات کتے کی طرح دانت باہر نکالتے ہیں جو اس کھانے کے اثرات کے سوا کچھ نہیں۔
گاڑیوں کے پیچھے یوں تو کتے اکثر دوڑتے ہیں اور کبھی کبھار آپ کا واسطہ بھی ایسے کتوں سے پڑا ہوگا جو آپ کی گاڑی یا بائیک کے پیچھے باؤلے ہوکر دوڈے ہوں۔جب سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کتوں کے گوشت سے بنے کباب ہم نے جم کر کھائے ہیں تب سے جانے کیوں ایسے واقعات میں اضافہ ہواہے اور کتے ہمارے پیچھے بے تحاشا دوڈ رہے ہیں۔کل کی بات ہے مرزا اور میں بائیک پر تعزیت کے لئے جارہے تھے۔ لب سڑک کتے ایسے آرام فرما رہے تھے جیسے تھکا ہارا مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد آرام فرماتا ہے۔ہمارا وہ راستہ اختیار کرنے سےشاید ان کے آرام میں خلل واقع ہوا کہ سارے برق کی طرح پھرتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہماری ٹانگ کھانے کو دوڈ پڑے۔ایک آدھ کلو میٹر تک ہمارا پیچھا ایسے کرتے رہے جیسے چور کے پیچھے پولیس پڑی ہو۔ان کے چنگل سے جان بچا کر جب نکل آئے تو جان میں جان آئی۔ طبیعت بحال ہوتے ہی مرزا سے پوچھا مرزا جی ان کتوں کا ہم نے کیا بگاڑا ہے جو یہ باؤلے ہوکر ہماری جان کے دشمن ہوئے۔ فرمانے لگے میاں انہیں ہم سیٹھ ساہوکار نظر آئے جو روز ہی ہوٹلوں میں کباب کھاتےہیں ۔ جن کتوں کو مار کر کباب بنائے گئے ہوسکتا ہے وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں۔کسی کے بیٹے کو مار کر اس کے گشتابے بنائے گئے ہوں ، کسی کی گھر والی کا گوشت یخنی بنانے کے کام آیا ہو، کسی کے ابا کا گوشت بُھننے کے بعد اس کا ٹیکا بنا کر بیچ دیا گیا ہو،یا کسی کے بھائی کی گردن اڑا کر اسے پکایا گیا ہو اور ہوٹل میں کھانا کھانے والوں کے سامنے پلیٹ میں رکھا گیا ہو۔ان کتوں کو یقین ہوگیا ہے کہ ہونہ ہو ان لوگوں نے ہی ہمارے رشتے داروں کو پکایا کر کھایا ہے اس کا بدلہ یہ کاٹ کر لینا چاہتے ہیں۔صاحبو راستہ دیکھ بھال کر چلئے اور احتیاط کیجیے ایسا نہ ہو کسی کا رشتہ دار آپ سے بدلہ لینے کے لئے تیار بیٹھا ہو اور بھونک بھونک کر دو چار گالیاں بھی دیتا ہو کہ حرام خورو میرے ابا کے کباب بنا کر کیوں کھائے۔اس سرگزشت پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس ہم فخر کررہے ہیں کہ ہم نے کیا کیا نہ کھایا۔
پچھلے دنوں خبر آئی اسفند کے پیچھے بھی کتے پڑے تھے۔ہم جب خبر گیری کو پہنچے تو ان کی زبانی سنا کہ کتے نے اسفند کو دیکھ کر پہلے’’ واؤ‘‘ کیا پھر اس کی ٹانگ میں دانت گاڑ دئیے۔مرزا نے اس واؤ کی شرح کی تو سمجھ میں آیا کہ اسفند قادری کی موٹی تازی ٹانگ دیکھ کر کتے نے اردو کے بجائے انگریزی wow کی آواز نکالی تھی۔سنا ہے اسفند نے اس دن دوپہر کا کھانا ہوٹل میں کھایا تھا۔اغلب ہے وہاں اسفند نے کتے کے گوشت سے بنے کباب کھائے ہوں۔کتے اپنے ہمدم کو نہیں بھولتے۔قریب القین ہے کہ ان کے حلقہ یاراں میں سے کسی کو اغوا کرنے کے بعد اسی کو تھالی میں سجایا گیا ہو۔کتوں میں سونگھنے کی استطاعت زیادہ ہوتی ہے۔انہوں نے سونگھ لیا ہوگا کہ اسفند نے ان کے دوست کا گوشت کھایا ہے بدلے میں وہ بھی اسفند کی ٹانگ کھانے کو دوڑ پڑے۔حساب برابر ہونے کے بعد اسفند نے قسم کھائی ہے وہ گھر کی دال کو مرغی برابر سمجھ لے گا اور باہر کی مرغی کو دال برابر۔
جانےکس منحوس گھڑی میں ہمارے کانوں نے یہ خبر سنی کہ فلاں جگہ پانچ سو کلو خراب گوشت برآمد ہوا ہے۔افواہیں ہوا میں موجود جراثیم کی طرح پھیلنی شروع ہوئیں اور پھیلتی چلی گئیں۔ روز نئی افواہ سماعتوں سے ٹکرائی اور روز ہی نیا کچھ سننے کو ملا۔کل خبر آئی کہ دو سو کتوں کو مارا گیا اور ان کا گوشت دو لاکھ انسانوں کے معدوں تک پہنچایا گیا تو آج اس خبر نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ صرف کتوں کو نہ مارا گیا بلکہ جتنے حرام جانور ہیں ان کی گردن فقط اس لئے اڑا دی گئی کہ انسانوں کو گوشت کھانے کا شوق ہے۔حواس باختہ افراد تک کی سمجھ میں آیا کہ انسان اندھا اور حریص ہوگیا ہےکہ چند سکوں کے عوض مردہ جانوروں اور کتوں کو انسان کا نوالہ بنا رہا ہے اور بے خبر انسان پیسے دے کر مزے سے کھا رہا ہے یہ سوچ کر کہ وہ شاید بکرا کھارہا ہے یا اس کے سامنے دنبہ پیش کیا جارہا ہے۔دانا سے لے کر نادان تک ، بوڑھے سے لے کر بچے تک ، عورت سےلے کر مرد تک ، مزدور سے لے کر ملازم تک ، آفیسر سے ماتحت تک ، سنتری سے منتری تک، طالب علم سے عالم تک اور بادشاہ سے وزیر تک سب کو کھلایا گیا انجانے میں سب نے کھایا۔ کشمیر کے کونے کونے تک یہ پکا پکایا گوشت پہنچا اور ہم تساہل پسندوں نے کھایا بغیر تحقیق کئے، چٹخارے لے لے کر لگاتار کھاتے رہے۔اس انکشاف کے بعد چند دنوں تک تو خوب اس کے چرچے ہوئے کہ ہمیں یہ کیا کھلایا گیا اور ہم نے کیا کیا کھایا پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اس کی بابت کسی نے بات نہ کی۔اب اس کی یادیں اور قصے ہیں۔
وہ لفافوں میں بھرا ہوا تھا،وہ ہر ہوٹل میں پکا پکایا
ہر گلی تک تو وہ پہنچا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
���
تکی بل ،کیلم،کولگام، کشمیر
موبائل نمبر؛ 8493981240